ممبئی، 10 فروری (یو این آئی) کمال امروہوی کانام ذہن میں آتے ہی فلم ’پاکیزہ‘کا خیال ذہن میں ضرور آتا ہے۔حالاں کہ انہوں نے دیگر فلمیں بھی بنائیں لیکن اس شاہکار فلم کے خالق کمال امرہوی کا یہ ڈریم پروجیکٹ تھا۔
بہترین ڈائیلاگ‘ موسیقی‘نغمات اورمیناکماری کی بے مثال اداکاری کی بدولت اس فلم نے ناظرین کے دل و دماغ پرایسے نقوش ثبت کئے‘ جنہیں آج تک محو نہیں کیا جاسکا۔
اس کے نغموں میں اس قدر کشش ہے کہ آج بھی جب فلم’پاکیزہ‘ کے نغمے کہیں سنائی دیتے ہیں تو لوگوں کے دل کی دھڑکنیں تھم جاتی ہیں اور لوگ ہمہ تن گوش ہوجاتے ہیں۔ویسے تواس فلم کے سبھی نغمات پسند کئے جاتے ہیں لیکن اس کا ایک گیت ’’موسم ہے عاشقانہ….. اے دل کہیں سے ان کو ایسے میں ڈھونڈ لانا………انتہائی مقبول ہوا۔دل کے ساز چھیڑنے والی موسیقی اور الفاظ کی بندش کے سبب اس فلم نے کامیابی کے ریکارڈ توڑے۔ آج اس فلم انڈسٹری کی کلاسک فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔
’پاکیزہ‘کمال امروہوی کی ڈریم پروجیکٹ فلم تھی جس پر انہوں نے 1958میں کام کرنا شروع کردیاتھا۔ یہ عہد بلیک اینڈ وہائٹ فلموں کا تھا۔ یہ فلم بھی بلیک اینڈ وہائٹ بننے والی تھی۔کچھ عرصہ بعد ہندوستان میں سنیمااسکوپ کا رواج ہوا تو انہوں نے 1961میں سنیما اسکوپ کی شکل میں بنانا شروع کیا۔
کمال امروہوی 17جنوری 1917کو اترپردیش کے امروہہ ضلع میں پیدا ہوئے۔ ان کے فلم انڈسٹری میں داخلہ کا واقعہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔کہاجاتا ہے کہ وہ بچپن میں انتہائی شرارتی تھے اور اپنی شرارتوں سے پورے گاؤں کی ناک میں دم کئے رہتے تھےایک بار ان کی والدہ نے انہیں زبردست پھٹکار لگائی تو انہیں نے اپنی ماں سے وعدہ کیا کہ ایک دن وہ انتہائی مقبول افراد میں شمار کئے جائیں گے اور ان کے دامن کو سونے چاندی کے سکوں سے بھر دیں گے۔
اس دوران ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے ان کی زندگی کے رخ کو بدل دیا۔ہوا یوں کہ ان کے بڑے بھائی نے ان کی شرارتوں سے تنگ آکر انہیں طمانچہ رسیدکردیا۔غصہ سے بپھرے کمال امروہوی گھرچھوڑ کر لاہور بھاگ پڑے۔
لاہور نے ان کی زندگی کی سمت ہی بدل دی۔ انہوں نے بڑا آدمی بننے کا عزم کرلیا تھا۔انہوں نے خوب محنت کی اورقدیم لسانیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرلی۔وہ انتہائی ذہین تھے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ انہوں نے محض 18سال کی عمر میں ہی ایک اردو اخبار میں کالم نگاری شروع کردی۔
اخبار کے مدیر کمال امروہوی کی صلاحیتوں کے اس قدر معترف ہوئے کہ اس زمانہ میں انہوں نے 300روپے ان کا مشاہرہ مقرر کردیا۔یہ اس وقت ایک خطیر رقم شمار کی جاتی تھی۔ کچھ دنوں تک اخبار میں کام کرنے کے بعد ان کا دل اس کام سے بھر گیا اور وہ کلکتہ آگئے اوروہاں سے پھربمبئی کا رخ کیا۔
لاہور میں کمال امروہوی کی ملاقات معروف نغمہ نواز اور اداکار کندن سہگل سے ہوئی ۔ کمال صاحب کی صلاحیتوں کو پہچان کر انہیں فلم میں کام دلانے کے لئے سہراب مودی کے پاس بمبئی لائے۔ وہ یہاں آکر فلم انڈسٹری میں جدو جہد کرنے لگے۔ اسی دوران انہوں نے خواجہ احمد عباس تک رسائی حاصل کی۔
ان کی کہانی ’سپنوں کا محل‘ سے فلم ساز و ہدایت کار اورمعروف کہانی نویس خواجہ احمد عباس بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے اس پر فلم بنانے کا ارادہ کرلیا۔اس کے لئے فلم ساز بھی تلاش کرلیا گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد کمال امروہوی کو معاشی تنگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے پاس کھانے کے لئے پیسہ تھا نہ سر چھپانے کے لئے گھر۔ ان کے ستارے گردش میں تھے۔ اسی دوران انہیں خبرملی کہ سہراب مودی کسی نئی اور اچھوتی کہانی کی تلاش میں ہیں۔وہ فوراً ان کے پاس پہنچے اور انہیں تین سو روپے ماہانہ تنخواہ پر رکھ لیا۔
ان کی کہانی پر مبنی فلم پکار(1939)انتہائی سپر ہٹ رہی۔ یہ فلم نسیم بانو اور چندرموہن کی اداکاری سے مزین تھی۔ انہوں نے اس فلم کے لئے چار گیت لکھے۔اس فلم کی کامیابی کے بعد کمال امروہوی کا جادو فلموں میں چل گیاا ور انہوں نے متعدد فلموں کے لئے کہانی‘اسکرپٹ اور ڈائیلاگ تحریر کئے۔
فلم’ محل‘ کمال امروہوی کے کیرےئر کا اہم موڑ ثابت ہوئی۔یہ فلم تجسس اوررومانس سے بھری تھی۔فلم ساز اشوک کمار نے اس کی ہدایت کاری کی ذمہ داری کمال امروہوی کو سونپی۔ بہترین گیتوں اور موسیقی کے سبب یہ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی اور اس کے بعد سے ہی فلموں میں سسپنس کا رواج چل پڑا۔فلم کی زبردست کامیابی نے مدھوبالا اور لتامنگیشکر کو نئی شناخت فراہم کی۔
اس سے حوصلہ پاکر کمال امروہوی نے 1953میں کمال پکچرس اور 1958میں کمالستان اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی۔اس کے بینر تلے انہوں نے اپنی بیوی مینا کماری کو لے کرایک آرٹ فلم ’’دائرہ‘‘ بنائی لیکن یہ فلم کامیاب نہ ہوسکی۔ اسی دوران فلم ساز و ہدایت کار کے آصف اپنی اہم فلم ’مغل اعظم‘ بنانے میں مصروف تھے۔اس کے ڈائیلاگ وجاہت مرزا لکھ رہے تھے۔
کے آصف نے محسوس کیا کہ ایک ایسے ڈائیلاگ لکھنے والے کی ضرورت ہے جس کے تحریر کردہ ڈائیلاگ ناظرین کے دماغ میں برسوں تک گونجتے رہیں۔ اس کے لئے انہوں نے کمال امروہوی کا انتخاب کیا اور انہوں نے چارڈائیلاگ لکھنے والوں میں شامل کرلیا۔ان کے تحریر کردہ ڈائیلاگ کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ عاشق و معشوق خط و کتابت میں ان کا استعمال کرتے تھے۔ اس فلم میں بہترین ڈائیلاگ لکھنے کے لئے انہیں فلم فےئر انعام سے بھی نوازا گیا۔
کمال امروہوی نے فلم جیلر(1938) ‘ میں ہاری (1940)‘ بھروسہ (1940)‘ مذاق (1943)‘ پھول (1945)‘ شاہ جہاں (1946)‘ محل(1949)‘ دائرہ(1953)‘ دل اپنا اور پریت پرائی(1960)مغل اعظم (1960) پاکیزہ (1971)‘ شنکر حسین (1971) اور رضیہ سلطان (1983) فلموں کے لئے کہانی‘ ڈائیلاگ اوراسکرپٹ لکھی۔
یہ سچ ہے کہ انہوں نے بڑی تعداد میں فلموں کے لئے اپنی خدمات پیش نہیں کی لیکن جن چنندہ فلموں میں انہوں نے کام کیا‘ پوری یکسوئی ‘ لگن اور جنون کے ساتھ کام کیا۔یہ صحیح ہے کہ ان کے کام کرنے کی رفتار انتہائی سست ہوتی تھی‘ جس کے سبب ان پر تنقید بھی کی جاتی تھی۔ ’رضیہ سلطان‘ کی فلم سازی کی رفتار دھیمی ہونے کے سبب ہیمامالنی نے بھی ان پر تنقید کی تھی۔لیکن ان کے کام میں ان کی شخصیت کی جھلک صاف نظر آتی تھی۔
جیسا کہ پہلے کہا جاچکا ہے کہ ’پاکیزہ‘ کمال امروہوی کی ڈریم پروجیکٹ فلم تھی جس پر انہوں نے 1958میں کام کرنا شروع کردیاتھا۔ یہ عہد بلیک اینڈ وہائٹ فلموں کا تھا۔ یہ فلم بھی بلیک اینڈ وہائٹ بننے والی تھی۔
کچھ عرصہ بعد ہندوستان میں سنیمااسکوپ کا رواج ہوا تو انہوں نے 1961میں سنیما اسکوپ کی شکل میں بنانا شروع کیا۔لیکن کمال امروہوی کی اپنی تیسری بیوی میناکماری سے علاحدگی کے سبب اس کی فلم سازی1961تا 1969 تعطل کا شکار رہی۔بعدازاں انہوں نے میناکماری کو کسی طرح اس فلم میں کام کرنے پر راضی کیا۔ بالآخر 1971میں یہ فلم مکمل ہوئی اور فروری 1972میں ریلیز ہوئی۔
یاد رہے کہ کمال امروہوی نے تین شادیاں کیں۔ان کی پہلی بیوی کا نام بانو تھا جو نرگس کی ماں جدن بائی کی نوکرانی تھیں۔بانو کی استھما سے موت کے بعد انہوں نے محمودی سے شادی کی۔تیسری شادی انہوں نے اداکارہ میناکماری سے کی جو عمرمیں ان سے پندرہ برس چھوٹی تھیں۔
دونوں کی ملاقات ایک فلم کے سیٹ پر ہوئی اور ان میں پیار پروان چڑھا یہاں تک کہ دونوں 1952 میں رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔ اس وقت کمال امروہوی چوبیس سال کے تھے اور میناکماری19 سال کی۔لیکن یہ شادی زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہی اور دونوں میں علاحدگی ہوگئی۔
دراصل مینا کماری کمال امروہوی کی صلاحیتوں کی معترف تھیں‘ اسی لئے وہ ان کے قریب ہوئیں۔لیکن جیسے جیسے مینا کماری خود کفیل ہوتی گئیں‘ کمال امروہوی کا سحر بھی ٹوٹنے لگا۔دونوں میں تکرار معمول بن گیا۔ اس تناؤ کے سبب فاصلوں میں اضافہ ہوا اور نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔
اس سلسلہ میں ایک بڑادلچسپ واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔ہوا یوں کہ کمال امروہوی تو مینا کماری کو طلاق دے چکے تھے لیکن انہیں اس کا بہت پچھتاوا ہوا اور وہ بہت رنجور ہوئے۔
اب بھی مینا کماری کی محبت ان کے دل کے کسی گوشہ میں زندہ تھی۔ میناکماری سے عقد ثانی کے لئے ان کے سامنے ایک ہی راستہ تھا‘ وہ تھاحلالہ۔ یعنی کوئی مینا کماری سے نکاح کرے اور طلاق دے دے‘ اس کے بعد ہی کمال امروہوی سے نکاح ہوسکتا تھا۔ انہوں نے ان سے دوبارہ نکاح کرنے کا ارادہ کیا۔ ان کے سکریٹری باقر نے اس کا پورا انتظام کرلیا تھا۔
لیکن اس دوران میناکماری کی دھرمیندر سے قربت نے اس معاملہ پر پانی پھیر دیا۔ میناکماری ’پاکیزہ‘ فلم کے لئے بطور ہیرو دھرمیندر کو لینا چاہتی تھیں۔کمال امروہوی نے مینا کماری کی دھرمیندر سے قربت کو بھانپ کر اس فلم کے ہیرو کے لئے راج کمار کو سائن کرلیا۔اس کے بعد دونوں میں جم کر لڑائی اور تکرارہوئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ کمال امروہوی نے میناکماری کے نرم و نازک گالوں پر زودار طمانچہ رسید کردیا۔ پھر کیا تھا مینا کماری آگ بگولہ ہوگئیں اور چیخ کر کہا کہ تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے کی۔آپ تو قانونی طور پر میرے شوہر بھی نہیں ہیں۔
میناکماری کی یہ بات سچ بھی تھی کیوں کہ اس وقت تک ان کے سکریٹری باقر نے انہیں طلاق بھی نہیں دیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ کمال امروہی نے اسی وقت باقر کو طلب کیا اورسب کی موجودگی میں اس سے کہا میناکماری کی پٹائی کرے۔عینی شاہدین کے مطابق باقر نے اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کی۔ بعد ازاں مینا کماری ہمیشہ کے لئے کمال امروہوی کی زندگی سے نکل گئیں۔لیکن ان کے دل میں مینا کماری کی محبت اور پیار کا جذبہ تامرگ باقی رہا۔ اس کااندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ان کی خواہش کے مطابق انہیں مینا کماری کی قبر کے بغل میں دفن کیا گیا۔
فلم ’پاکیزہ‘ کی تکمیل کے بعد فلم ساز و مکالمہ نگار کمال امروہوی کاکچھ عرصہ کے لئے فلموں سے ربط منقطع رہا۔ بعدازاں1983میں انہوں نے فلم انڈسٹری کا رخ کیا اور اپنی ہدایت کاری میں ’رضیہ سلطان‘ بناکر فلم انڈسٹری میں اپنا سکہ جمایا۔یہ فلم حالاں کہ کچھ زیادہ مقبول نہیں ہوئی کیوں کہ اس کے مکالموں میں فارسی کا کثرت سے استعمال کیا گیا تھا جن سے عام لوگ متاثر نہیں ہوسکے۔
لیکن یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جو لوگ فارسی داں ہیں‘ انہوں نے اس فلم کو ہٹ فلموں کی طرح دیکھا۔مشہور اداکارہ ہیمامالنی نے اس فلم میں رضیہ سلطان کاکردار بخوبی نبھایااور حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے کس طرح مکالموں کی ادائیگی کی کیوں کہ اس کے مکالموں میں فارسی الفاظ کی کثرت تھی۔
بہرحال ہیمامالنی بہترین اداکارہ ہیں۔ان سے ایسی توقع کی جاسکتی تھی اور انہوں نے اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھایا۔یہ عظیم الشان فلم باکس آفس پر زیادہ کامیاب نہیں رہی۔کمال امروہوی اس سے بے حد مغموم ہوئے۔کچھ دنوں تک وہ صدمے میں رہے پھر دوبارہ حوصلہ کرکے انہوں نے ایک اور فلم ’آخری مغل‘ بنانے کا ارادہ کیا لیکن ان کا فلم بنانے کا یہ خواب حقیقت میں نہیں بدل سکا اور یہ عظیم فن کار 11فروری 1993کو خالق حقیقی سے جاملا۔