ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں انتخابات کو قومی تہوار کا درجہ حاصل ہے۔ مگر یہ تہوار خوشی منانے او رلہو لعب کے ل ئے نہیں ہے بلکہ مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنے کا موقع ہے۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ حق پسندوں اور مظلوموں کا آواز بلند کریں۔
اس تناظرمیں دیکھا جائے تو ہماری نظر اس نوجوان پرجاتی ہے جس کے دل میں ہمدردی کا طوفان ہے،جس کے علم وفکر میں ہندوستان کی ترقی کا ایک خواب ہے۔ اس نوجوان کو دنیاآج کنہیاکمار کے نام سے جانتی ہے۔
یہ وہی کنہیا کمار ہے جو آج جمہوریت پسندوں کی آواز بن کر ریاست بہار کے بیگو سرائے لوک سبھا میں ایک ایسے شخص کو چیلنج کررہا ہے جسے فرقہ پرستوں کا مکھونا کہا جاسکتا ہے۔ گیری راج کے حوالہ سے وہ مسلمانو ں کے مخالف ہیں بلکہ یہ بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ صرف مسلمانو ں کے ہی نہیں بلکہ ملک کے تمام سیکولر ذہن کے دشمن ہیں۔
گیری راج سنگھ اقتدار کے لئے کسی بھی حد جاسکتے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ کنہیا کمار کے مقابلہ میں بی جے پی نے انہیں اتارا ہے۔ تاکہ وہ وہاں بھی ہندو توا او رفرقہ پرست کے زہر اگلے او راس طوفان میں کنہیا کمار بہہ جائے۔ راشٹریہ جنتا دل کے امیدوار ڈاکٹر تنویر حسن کے حامی بھی فرقہ واریت کے اس عذاب سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کے لئے کنہیا کمار ایک عرصہ سے سرگرم ہیں۔ مگر خطرہ کی بات یہ ہے کہ کہیں اس پس وپیش میں دونوں ہی مقصد سے دور نہ ہوجائیں اس لئے متحدہ طور پر فیصلہ لینا ہے کہ ہمیں اگر ملک کو بچاناہے تو اس ملک کے آئینی اداروں کو تحفظ فراہم کرنا ہے او رہمیں کنہیا کمار کیلئے متحد ہوجانا چاہئے۔
یاد رکھیں کہ کنہیا کمار صرف ایک سیاست داں نہیں بلکہ لاکھوں افکار کا ترجمان ہیں۔ او ر وہ کسی سیاسی جماعت کے سمبل یا نظریہ کے پابند نہیں بلکہ وہ ایک ایسی آواز ہیں جن کیلئے ہندوستان او رہندوستان سے باہر لوگوں کا دل دھڑکتا ہے۔ عوام کو یقین ہے کہ یہ نوجوان ہندوستان کی سیاست میں ایک نئی تاریخ رقم کرے گا۔ بیگو سرائے کے عوام کو ہندوستان کے ان لاکھوں، دانشوروں، صحافیو ں او رحقوق انسانی کیلئے کام کرنے والوں کے دلی جذبات کا بھی احترام کرنا چاہئے جو کنہیا کمار کی سرخروئی چاہتے ہیں۔ چنانچہ ساری دنیا کے سامنے بیگوسرائے کے عوام کا امتحان ہے۔