نئی دہلی : نارنگ ساقی کی مرتبہ کتاب کنور مہندر سنگھ بیدی سحرفن اور شخصیت کے اجرا کے موقع پر دانشوروں کا اظہار خیال
گزشتہ روز غالب اکیڈمی،نئی دہلی میں نارنگ ساقی کی مرتبہ کتاب ”کنور مہندر سنگھ بیدی سحر فن اور شخصیت“ کے اجرا کے لیے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔اس موقع پر سہیل انجم نے کتاب کا تعارف کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں کنور مہندر سنگھ بیدی کی شخصیت پر سیکڑوں مضامین ہیں۔
منظوم خراج عقیدت کے ساتھ کنور مہندر سنگھ بیدی کی شاعری اور نثر پارے کے نمونے ہیں۔گویا یہ کتاب کنور مہندر سنگھ بیدی کی شخصیت کا نگار خانہ ہے۔اس کتاب میں رنگا رنگی ہے۔یہ رنگا رنگی ان کی شخصیت میں بھی تھی۔بیدی صاحب میں انسانی خوبیاں کوٹ کوٹ کر بھری تھیں۔اس موقع پر ڈاکٹر خالد علوی نے اپنی تقریر میں کہا کہ بیدی صاحب کی شخصیت کثیرالجہات تھی۔ان کی شاعری قابل توجہ ہے۔
سہل ممتنع کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ان کی شاعری آسان ہے لیکن معنی کے اعتبار سے اس میں تہہ داری ہے۔”یادوں کا جشن“ کے حوالے سے خالد علوی نے کہا کہ اس کتاب میں بیدی صاحب کی شخصیت کی مختلف جہتیں سامنے آتی ہیں وہ صرف شاعر و ادیب اور منتظم نہیں بلکہ سماج کے ہر طبقے پر ان کی نظر ہوتی ہے وہ سب کے مسائل حل کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔
جوش ملیح آبادی اور بیدی صاحب کے سوانحی بیانات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بیدی صاحب کی باتیں حقائق اور دلائل پر مبنی ہوتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بیدی صاحب کی ”یادوں کا جشن“ کو نارنگ ساقی نے پانچ بار شائع کیا۔نارنگ ساقی نے بیدی صاحب کی شعری و نثری تخلیقات کو شائع کرکے ان پر جلسے کرکے ان کی یاد کو زندہ رکھا ہے۔
پروفیسر اختر الواسع نے کتاب کا اجرا کرتے ہوئے کہا کہ آج کے دور میں نارنگ ساقی کا دم غنیمت ہے کہ انھوں نے بیدی صاحب کی یاد کو قائم رکھا۔بیدی صاحب گنگا جمنی تہذیب کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ انھوں نے1947میں جب انسانیت پارہ پارہ ہو رہی تھی تو انسانیت کی آبرو رکھی۔کے ایل نارنگ ساقی کے بغیر ہم ان کا تصور نہیں کرسکتے ہمیں اپنے محسنوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔
تقریب کی صدارتی تقریر میں ڈاکٹر جی آر کنول نے کہا کہ بیدی صاحب کی شخصیت تہہ دار تھی۔وہ زمیندار تھے کسانوں اور مزدوروں کی تفریح کا انتظا م بیدی صاحب کرتے تھے۔وہ دشوار کام کو آسان کرتے تھے۔ وہ سپر مین تھے۔
نہرو نے کہا تھا اگر دہلی سے مسلمان چلے جائیں گے تو یہ ایک کلنک ہوگا۔بیدی صاحب نے دہلی میں رونما فساد کو روکا اور مسلمانوں کو دہلی میں تحفظ فراہم کیا۔ ان کا انداز حکیمانہ تھا۔ اس موقع پر عقیل احمد نے کہا کہ بیدی صاحب کا سلسلہ براہ راست گورونانک سے ہے۔
وہ زمیندار اور حاکم منصف شاعر ادیب بھی تھے۔انسان دوست اور ہمدرد بھی تھے انھوں نے ہر میدان میں اپنا نقش چھوڑا ہے۔سنگرور سے آئے کرشن بیتاب نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وہ شاعروں کے ہیرو تھے انھوں نے بہت سے لوگوں کا بھلا کیا ہے۔ اس موقع پر متین امروہوی نے بیدی صاحب کا قلمی چہرہ پیش کیا۔آخر میں نارنگ ساقی نے اظہار تشکر کیا۔اس موقع پر بڑی تعداد میں شاعر و ادیب موجود تھے۔