عالمی تنہائی سے پہلے جو آخری مکمل انٹرنیشنل میچ پاکستان میں کھیلا گیا تھا، اس کی میزبانی کراچی نے کی تھی۔ چند ہی روز بعد آخری نامکمل انٹرنیشنل میچ لاہور میں کھیلا گیا, اور پاکستان پہ انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بند ہو گئے۔
ستم ظریفی مگر یہ ہوئی کہ جب چھ سال بعد پاکستان کی انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہوئی تو آغاز لاہور ہی سے ہوا۔ زمبابوے کے دورے کے بعد دوسرا پی ایس ایل فائنل بھی لاہور کے حصے میں آیا۔ یہاں تک کہ ورلڈ الیون کے بعد وہ سری لنکا بھی لاہور ہی آئی، جس پہ لبرٹی چوک میں حملہ ہوا تھا۔
ان آٹھ سال میں نیشنل سٹیڈیم کراچی پہ کتنے پہر گزرے، کسی نے کچھ خبر نہ لی۔ ڈومیسٹک میچز ہوتے رہے لیکن جب بھی انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کی بات چلی، دروازہ لاہور کو ہی ٹھہرایا گیا۔
اس پی ایس ایل سے پہلے پی سی بی کو کراچی کی تنہائی کا خیال بھی آ گیا اور پی ایس ایل فائنل کراچی میں کروا دیا گیا۔ جس کا فوری فائدہ یہ ہوا کہ نو سال بعد نیشنل سٹیڈیم کراچی کو انٹرنیشنل کرکٹ کی میزبانی مل گئی اور کراچی کی روشنیاں لوٹ آئیں۔
ٹھیک دس سال پہلے یہیں ایک ٹی ٹونٹی میچ ہوا تھا۔ پاکستان اور بنگلہ دیش مدمقابل تھے۔ مصباح الحق نے ایک بھاری بھر کم اننگز کھیلی تھی۔ اس میچ میں پاکستان کا سکورکارڈ ہوبہو وہی تھا جو کل شب کے میچ میں تھا۔ لیکن فتح کا مارجن 102 سے بڑھ کر 143 ہو گیا۔
پاکستان نے سات بولر استعمال کیے، چھ نے وکٹیں لیں۔ ویسٹ انڈیز نے بھی سات ہی بولر استعمال کیے، تین نے ایک ایک وکٹ لی، ایک کا ٹخنہ نکل گیا، اور باقی تین کچھ بھی نہ کر پائے۔
ایک طرف حسین طلعت نے ہوم کراوڈ کے سامنے یادگار انٹرنیشنل ڈیبیو کیا تو دوسری طرف میزبانوں کی خوش قسمتی میچ پہ ایسے طاری ہوئی کہ ورلڈ چیمپئین ویسٹ انڈیز کے لیے یہ ٹی ٹونٹی تاریخ کا شرمناک ترین دن بن گیا۔
ویسٹ انڈین سکواڈ کی کمزوریاں تو اپنی جگہ، لیکن پھر بھی یہ سوال بدستور ہے کہ طویل فلائٹ کے بعد صبح تین بجے ہوٹل میں چیک ان کرنے والے ایک انٹرنیشنل پلئیر کے لئے شام آٹھ بجے، مخالف کراوڈ کے سامنے، میچ کھیلنا کتنا آسان ہوتا ہے؟
ویسٹ انڈیز کا یہ مختصر ترین انٹرنیشنل ٹور کسی فیوچر ٹور پروگرام کا حصہ نہیں تھا۔ بلکہ بے یقینی اس قدر تھی کہ یہی تین میچز پہلے نومبر 2017 میں ہونا طے پائے تھے اور ان کی میزبانی لاہور کو کرنا تھی۔
مگر اچانک سموگ کو جواز بنا کر یہ پروگرام ملتوی کر دیا گیا۔ اس دوران پاکستان کرکٹ بورڈ کے ویسٹ انڈین کرکٹ بورڈ سے مذاکرات جاری رہے۔ بیچ میں ہی یہ بھی سننے کو ملا کہ دونوں بورڈز کے درمیان پانچ سالہ معاہدہ ہونے کو ہے جس کے تحت ویسٹ انڈیز ہر سال پاکستان کا دورہ کیا کرے گی اور جوابا پاکستان امریکہ میں سالانہ سہ فریقی ٹورنامنٹ میں ویسٹ انڈیز کا مہمان ہوا کرے گا۔
لیکن بزنس ماڈل اور براڈکاسٹرز کی خواہشات میں عدم تطابق اس معاہدے کے آڑے آ گیا۔ بہر طور، اس سال کے لیے یہ طے پا گیا کہ ویسٹ انڈیز تین میچز کراچی میں کھیلے گی اور جوابا پاکستان امریکہ جا کر ویسٹ انڈین کرکٹ بورڈ کے سہ فریقی ٹورنامنٹ میں شرکت کرے گا۔
اس معاہدے کی پہلی کڑی کل شب کا میچ تھا جس نے کراچی کی انٹرنیشنل کرکٹ بھی لوٹا دی اور ویسٹ انڈین کرکٹ بورڈ کی قابلیت کی جھلک بھی دکھلا دی، جس کی پلاننگ یہ تھی کہ دس بارہ پلئیرز اتوار کی صبح کراچی اتریں، شام سے میچ کھیلنے لگیں اور تیسرا میچ ختم ہوتے ہی سیدھا کراچی ائیرپورٹ جا کر، کیریبین کی فلائٹ پکڑ لیں۔
اس بیچ جتنی بھی کرکٹ کھیلی جائے گی، اس میں صرف ایک تھکی ماندی، بے بازو ویسٹ انڈین ٹیم ڈیو کیمرون کی کاروباری خواہشات کی تسکین کرنے کی کوشش کرے گی، جبکہ اس کے اصل سٹارز ہمسایہ ملک کی آئی پی ایل پہ نگاہیں جمائے بیٹھے ہوں گے۔
تین روز تک، صرف چند بے خواب آنکھیں نیشنل سٹیڈیم کراچی میں ایک ہی سوال لیے پھریں گی، ’کراچی سے کیریبئین، فلائٹ کتنے گھنٹے کی ہے؟‘