کیرانہ سے حیدر علی،سنیت شریواسروا اور فوٹو گرافر نجم الحسن کی خصوصی رپورٹ
جھوٹ کی زمین میں ڈالے جا رہے ہیں نفرت کے بیج
نقل مکانی کا معاملہ اٹھا کر اپنی سیاست چمکانا چاہتے تھے حکم سنگھ
کیرانہ میں قائم ہے فرقہ وارانہ ہم آہنگی
’’یہاں شیخ و برہمن ہر طرح آزاد رہتے ہیں
ادھر رہتا ہے گر رامو،ادھر شمشاد رہتا ہے
نہیں ہے ذکر کلیوں کا ، یہاں گل شاد رہتے ہیں
نگر ہے یہ محبت کا یہاں فرہاد رہتے ہیں‘‘
کیرانہ کے ایک بزرگ اردو صحافی کی کتاب کے صفحہ اول پر درج یہ اشعار وہاں کے موجودہ حالات سے جدا نہیں ہیں۔ ہندو ہو یا مسلمان دونوں کے دلوں میں محبت آج بھی پیوست ہے۔ سیاسی چال بازیاں بھی وہاں کے لوگوں کے دلوں میں نفرت کا زہر نہیں گھول سکی ہیں۔ بی جے پی رکن پارلیمنٹ حکم سنگھ کے ذریعہ جاری کی گئی کیرانہ سے نقل مکانی کرنے والوں کی فہرست پر لوگ حیرت زدہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’بابو جی‘ تو سیکولر سیاست کرتے تھے ہمارے نیتا تھے پتہ نہیں ایسی سیاست کیوں کرنے لگے؟ یہ سچ ہے کہ لوگوں نے کیرانہ سے نقل مکانی کی ہے لیکن ایک دوسرے سے خوفزدہ ہو کر کے نہیں بلکہ کسی کو بچوں کی پڑھائی کے سبب کیرانہ سے نقل مکانی کرکے باہر جانا پڑا ، کوئی کاروبار کیلئے تو کوئی بہترین ملازمت کے سلسلہ میں۔ کیرانہ چھوڑ کر کہیں اور بس گیا ہے۔ کیرانہ چھوڑنے کی ایک وجہ رنگ داری بھی ہے۔
مقیم کالا جیسے گروہ کی دہشت آج بھی کیرانہ کے کاروباریوں میں پائی جاتی ہے۔ کہاجاتا ہے کہ بی جے پی کے ایک رکن پارلیمنٹ کی سرپرستی بھی کبھی مقیم کالا کو حاصل تھی لیکن بعد میں وہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اس کی رنگ داری اور غنڈہ گردی بڑھتی گئی۔ رنگ داری کیلئے دھمکیاں آج بھی مل رہی ہیں۔ متاثرین کو پولیس کے ذریعہ تحفظ بھی دیاجا رہا ہے۔ حالانکہ پولیس سے تھوڑی ناراضگی بھی ہے یہاں کے لوگوں میں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہاں کے لوگ کبھی پولیس کے کام سے مطمئن نہ رہے ہوں۔ ایک آئی پی ایس افسر پون کمار کا نام آج بھی لوگوں کی زبان پر ہے۔ وہ اس ایماندارآئی پی ایس افسر کے طریقہ کار کے معترف ہیں۔ سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر پون کمار جیسا آئی پی ایس افسر شاملی کو دوبارہ کیوں نہیں مل پایا؟
کیرانہ گئی ’آگ‘ اور انقلابی نظر ٹیم کی ایک خاص رپورٹ
کیرانہ سے نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی فہرست جاری کرنے والے رکن پارلیمنٹ حکم سنگھ کی حقیقت سے روبرو ہونے کیلئے اردوروزنامہ’آگ‘ اور ہندی روزنامہ’انقلابی نظر‘ کی ٹیم جب کیرانہ پہنچی تو درجنوں افراد سے گفتگو اور بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ وہاں کے حالات کو سمجھنے کی کوشش کی گئی تین روز تک کیرانہ میں رہنے والے نقل مکانی کی جو حقیقت سامنے آئی وہ مکمل طور سے محض سیاسی فریب ثابت ہوئی۔ بی جے پی رکن پارلیمنٹ حکم سنگھ کی نقل مکانی والی فہرست میں درج کچھ افرادکی رہائش پر جب یہ ٹیم پہنچی اور ان سے گفتگو شروع کی تو کیرانہ کی حقیقت کچھ اس طرح سامنے آئی۔
کیرانہ کے لوگ واضح طور پر کہتے ہیں کہ یہ انتخابی اسٹنٹ ہے۔ ریاستی اسمبلی کے انتخابات نزدیک ہیں اس لئے سیاست داں ووٹوں کی سیاست کو ہوا دے رہے ہیں۔ حکم سنگھ نے لوگوں کی نقل مکانی کرنے کا سبب فرقہ وارانہ ماحول کا خراب ہونا بتایا تھا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یو پی کی سماجوادی حکومت بھی اس بات کو خارج کر چکی ہے۔ نقل مکانی کے جن اسباب کا ذکر حکومت نے کیا تھا ہماری جانچ پڑتال کا نتیجہ بھی کچھ اسی کے ارد گرد رہا۔ رنگ داری ، غنڈہ گردی، اور لوگوں کی انفرادی ضروریات کیرانہ سے نقل مکانی کی بڑی وجوہ کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ لوگوں میں آج بھی بھائی چارہ قائم ہے وہ مل جل کر رہنا چاہتے ہین ۔
مقیم کالا نامی جس گینگ کی دہشت لوگوں پر چھائی ہے اسے یو پی ایس ٹی ایف پہلے ہی گرفت میں لے کر جیل پہنچا چکی ہے۔اس کا ایک ساتھی راہل کٹا انکاؤنٹر میں مارا جا چکا ہے۔ اس کے نام پر غنڈہ گردی کرنے والے کچھ چھوٹے بدمعاشوں پر شکنجہ کسنے کی ضرورت ہے۔
بی جے پی رکن پارلیمنٹ حکم سنگھ کبھی مسلم ووٹروں کے بھی پسندیدہ تھے۔ ان کو ملنے والے ووٹوں میں تقریباً ۱۰ہزار ووٹ کیرانہ کے مسلمانوں کے بھی ہوا کرتے تھے۔ لیکن بدلے ہوئے سیاسی حالات نے حکم سنگھ کے قد کو بھی پستہ کر دیا۔لوگوں کو افسوس ہے کہ نقل مکانی کی غلط فہرست جاری کر کے اسے فرقہ پرستی کی جانب موڑ کر ’بابوجی‘ کیا پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب یو پی حکومت نے اس کی جانچ کرائی اور جو رپورٹ سامنے آئی اس سے حکم سنگھ کٹگھرے میں گھرتے چلے گئے۔ کیرانہ کے ایس ڈی ایم رام کمار گپتا نے بتایا کہ سی او کے ساتھ انہوں نے کیرانہ سے نقل مکانی کرنے والوں کی مشترکہ جانچ کی۔ جانچ کے بعد جو رپورٹ سامنے آئی اس کے مطابق ۳۴۶؍افراد کی فہرست نے کیرانہ سے ۶۶لوگ دس برس قبل ہی نقل مکانی کر کے جا چکے ہیں۔ ۱۸۸؍افراد چار سے پانچ سال قبل گئے ہیں۔ ۶۰
لوگ تین برس کے اندر ہی کیرانہ چھوڑ کر گئے ہیں۔ ان تمام افراد کی نقل مکانی کے جو اسباب سامنے آئے ان میں روزگار، تعلیم اور کاروبار کو فروغ دینا ہی شامل ہے۔کیرانہ کو چھوڑ کر یہ لوگ سونی پت، پانی پت، کرنال، دہلی اور سورت وغیرہ شہروں کی جانب گئے۔ ایس ڈی ایم نے بتایا کہ رکن پارلیمنٹ حکم سنگھ کی فہرست میں ۲۸کنبے ایسے ہیں جو اب بھی کیرانہ میں ہی سکونت پذیر ہیں۔ چار کنبوں کے بارے میں تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔ سترہ افراد کی موت ہو چکی ہے جن کے چار کنبے اب بھی وہیں پر سکونت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ سات کنبے ایسے ہیں جن کے نام فہرست میں دو بار درج ہیں۔ پانچ ایسے افراد کےنام بھی درج ہیں جو ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد اپنے آبائی گاؤں رخصت ہو گئے ہیں۔ ان میں سے نقل مکانی کرنے والے صرف تین معاملات ایسے ہیں جو رنگ داری اور قتل سے تعلق رکھتے ہیں۔ بقیہ تمام افراد اپنی ضرورتوں کے تحت نقل مکانی کر کے گئے ہیں۔
مقیم کالا کی دہشت جیل سے چلا رہا ہے گروہ
کیرانہ میں مقیم کالا گروہ کی دہشت ہے۔ بھلے ہی مقیم کالا اس وقت جیل میں بند ہے لیکن اس کے نام پر رنگداری آج بھی مانگی جارہی ہے۔ اس کا نیٹ ورک آج بھی کام کر رہا ہے۔ یو پی ایس ٹی ایف مقیم کالا اور اس کے ۲۸ساتھیوں کو گرفتار کر جیل بھیج چکی ہے۔ مقیم کالا کا ایک ساتھی راہل کٹا ان کاؤنٹر میں مارا جا چکا ہے۔ جس وقت مقیم کالا اور اس کے ساتھی گرفتار ہوئے تب کیرانہ کے ایس پی پون کمار تھے۔ لوگ خوش تھے۔ انہیں کافی حد تک مقیم کالا کی دہشت سے آزادی مل گئی تھی۔ کیرانہ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ دونوں ہی بدمعاش مقیم کالا اور راہل کٹا کو حکم سنگھ کا تحفظ حاصل تھا۔ انہیں کی شہ پر اس کی غنڈہ گردی اور وصولی چل رہی تھی۔ دھیرے دھیرے راہل کٹا کا قد بڑھتا گیا۔ بعد میں تحفظ دینے والے نیتا کے ہاتھ سے وہ نکل چکا تھا۔ اس کے بعد میں ایس ٹی ایف نے اسے تصادم میں مار گرایا۔ اس کے علاوہ مقیم کالا کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ کیرانہ کے لوگ کہتے ہیں کہ مقیم کالا آج بھی جیل میں اپنا گروہ آپریٹ کر رہا ہے۔ اس کے نام پر آج بھی رنگداری مانگی جا رہی ہے۔ کئی ایسے دھمکی بھرے خط بھی دکانداروں کو بھیجے گئے ہیں جس میں یہ لکھا ہے کہ مقیم کالا سے جیل میں آکر ملو۔ مقیم کالا گروہ نے ہی کیرانہ میں رنگداری نہ دینے پر ۲۰۱۴ میں دو کاروباری شیوکمار اور راجندر کا قتل کر دیا تھا۔
کیرانہ میں فرقہ واریت کے شعلہ بھڑکانا چاہتی ہے بی جے پی
کیرانہ کے باشندوں کا کہنا ہے کہ پہلے تو حکم سنگھ نے بغیر سوچے سمجھے اپنی سیاست چمکانے کیلئے کیرانہ سے نقل مکانی کرنے والے کنبوں کی جو فہرست جاری کی ان میں تمام خامیاں تھیں اور اس کی وجہ سے ان پر اور بی جے پی پر فرقہ وارانہ سیاست کرنے کا الزام لگنے لگا ہے۔ کیرانہ کے عوام کے مطابق حکم سنگھ کو جلد ہی اس کا احساس بھی ہوگیا۔ دوسری جانب سنگیت سوم کے ذریعہ کیرانہ کے معاملہ میں دخل اندازی کئے جانے سے حکم سنگھ کا قد گھٹنے لگا اور حکم سنگھ اپنے قدم پیچھے ہٹانے پر مجبور ہو گئے اور فوراً ہی انہوں نے سنگیت سوم کی کیرانہ میں دخل اندازی کے خلاف ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا اور فہرست میں ہوئی خامیوں پر افسوس ظاہر کیا۔ کیرانہ کے باشندوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکم سنگھ اور سنگیت سوم کے درمیان رسہ کشی سے بی جے پی کی فرقہ واریت والی شبیہ مزید روشن ہو گئی ہے۔ اترپردیش میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور بی جے پی کے پاس کوئی مدعا نہیں ہے۔ اس لئے پارٹی کسی مدعے کی تلاش میں ہے۔ کبھی وہ متھرا کے واقعہ سے فائدہ اٹھانے کی ناکام کوشش کرتی ہے تو کبھی کیرانہ میں فرقہ واریت کے شعلے بھڑکانے کی کوشش میں ہے۔ لیکن ہم اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیںگے۔ واضح ہو کہ ۱۹۸۰ء میں اسی علاقہ سے چودھری مہندر سنگھ ٹکیٹ نے حکومت کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے کسی بھی طرح کے قرض اور ٹیکس کے خلاف تحریک شروع کی تھی۔ مغربی یوپی میں اجگر (اہر ، جاٹ، گوجراور راجپوت)ووٹ بینک پر سابق وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ کا قبضہ تھا اور اس نے تمام سیاسی پارٹیوں کو اپنی طرف راغب ہونے پر مجبور کیا۔
کیرانہ کے پُر سکون ماحول کو خراب کرنے پر کیوں آمادہ ہیں سیاست داں
۲۰۱۴ء میں دو حقیقی بھائیوں کے قتل کے بعد سرخیوں میں آیاکیرانہ اب مکمل طور پر پُر سکون ہو چکا تھا۔ اچانک بی جے پی رکن پارلیمنٹ حکم سنگھ کے ذریعہ جاری نقل مکانی کی فہرست نے ایک بار پھر وہاں کے ماحول کو گرم کرنے کا کام کیا۔کیرانہ کے لوگ کہتے ہیں کہ اسے ہوا دینے کی کیا ضرورت ہے؟ اب تو کیرانہ پھر سے پٹری پر واپس آرہا تھا کاروبار بھی دھیرے دھیرے معمول پر آنے لگا تھا۔ نقل مکانی کی فہرست جاری ہونے کے بعدسے بڑھی سرگرمیوں کی وجہ سے کاروبار ایک بار پھر متاثر ہو رہا ہے۔
۲۵برس سے کیرانہ میں سکونت پذیر انل کمار گپتا کہتے ہیں کہ یہاں فرقہ واریت جیسی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ ۲۰۱۴ء میں رنگداری کی وجہ سے چار قتل ہوئے تھے۔ اس وقت دہشت کا ماحول پیدا ہو گیا تھا لیکن اب سکون ہے۔ لوگوں کے نقل مکانی کی وجہ یہی رنگداری ہی ہے۔ چین پال اور آتما رام کہتے ہیں کہ ہندو ہو یا مسلمان کوئی بھی جھگڑا نہیں چاہتا ہے۔ آپس میں بھائی چارہ قائم ہے ۔ جہاں تک نقل مکانی کی بات ہے تو وہ ہندوؤں نے بھی کی ہے اور مسلمانوں نے بھی۔ بچوں کی پڑھائی ، ملازمت اور کاروبار کیلئے نقل مکانی ناگزیر ہو گئی تھی۔ محمد منیم اور رام کمار کہتے ہیں کہ ۱۹۹۰ءسے کیرانہ میں کاروبار کر رہے ہیں کاروباریوں کو رنگداری کیلئے دھمکیاں دی جاتی ہیں اسی سے پریشان ہو کر کئی کاروباری کیرانہ سے باہر چلے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۴ء میں ایک آئی پی ایس افسر پون کمار کی آمد ہوئی تھی انہوں نے غنڈہ گردی پر مکمل طور پر لگام لگا دی تھی۔ لیکن ان کا تبادلہ ہو گیا۔ ۲۰۱۴ء میں کیرانہ میں ونود نامی جس کاروباری کا قتل ہوا تھا اس کے بھائی ورون سنگھل نے بتایا کہ کیرانہ میں غنڈہ گردی عروج پر ہے۔
رنگداری وصولی جا رہی ہے لیکن آپس میں بھائی چارہ قائم ہے۔ ہماری پراپرٹی کی کوئی قیمت نہیں ہے ورنہ ہم بھی چھوڑ کر کسی دوسرے شہر میں کاروبار کرتے ۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کے مسائل کےسلسلہ میں وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو سے بھی ملاقات کرنے کی کوشش کی لیکن ان سے ملاقات نہیں ہوپائی۔ روز الدین کہتے ہیں کہ اب نقل مکانی کی بات کر کے بے وجہ تنازعہ پیدا کیاجارہا ہے۔ یہ سب نیتاؤں کی سیاست ہے آپس میں جھگڑا کرانے کی۔ کیرانہ کے آریہ پوری دیہات میں رہنے والے ستیہ پال بتاتے ہیں کہ مسلم آبادی کے درمیان ان کا واحد مکان ہے۔ انہیں کبھی کسی قسم کی کوئی دشواری نہیں ہوئی ہے۔ دوبرس کے تھے تب سے یہاں رہ رہے ہیں۔ علی شیر کہتے ہیں کہ سیاست کی وجہ سے کیرانہ کا نام اس قدر سرخیوں میں آگیا کہ سعودی عرب سے فون آرہا ہے کہ کیرانہ میں کیا ہو گیا؟ وہ کہتے ہیں کہ اسی طرح سیاست ہوتی رہی توہمارے بچوں کی شادی بیاہ ہونا بھی مشکل ہو جائے گا۔ لوگ کیرانہ کی جانب رخ ہی نہیں کرنا چاہیںگے۔ انل کمار متل کہتے ہیں کہ لوگ اپنی ترقی اور خوشحال زندگی کی تلاش میں باہر گئے ہیں یہاں کبھی کوئی دنگا فساد نہیں ہوا۔ یہاں سب ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ پہل سنگھ اور اشوک کہتے ہیں کہ غنڈوں کی دہشت ہے یہاں پر۔ بی جے پی کے سابق شہر صدر پروین کمار گرگ کہتے ہیں کہ یہاں کبھی بھی فرقہ واریت کا ماحول نہیں رہا اور نہ کبھی حکم سنگھ کا ایسا نظریہ رہا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہاں جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کون کررہا ہے۔ اس کے بارے میں حکومت کو معلومات حاصل کرانا چاہئے۔ حکومت کی پالیسی غلط ہے اس میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ کیرانہ کے پنڈارا گاؤں کے وجندر سنگھ کہتے ہیں کہ جو بھی حکومت کی ٹیم جانچ کرنے آئے وہ رازدارانہ طریقے سے خفیہ طور پر جانچ کرے ۔ وہ سوالیہ لہجے میں کہتے ہیں جن لوگوں کے سنیماہال ہیں آخر وہ یہاں سے باہر کیوں جا رہے ہیں؟ سبھاش چندر متل کہتے ہیں کہ ان کے بھائی سے ۲۰لاکھ روپئے رنگداری طلب کی گئی تھی اس لئے وہ کیرانہ چھوڑ کر چلے گئے۔ سریش سنگھ ،ا نکر اور تسلیم کا کہنا ہے کہ نقل مکانی کی خاص وجہ صرف غنڈہ گردی ہے۔ سمیبل اور محمد ابرار کا کہنا ہے کہ لوگ کاروبار کے فروغ کیلئے باہر جاتے ہین۔
ارشاد احمد قریشی، محمد کامران اور انل کمار سنگھ کا خیال ہے کہ اس طرح کی گمراہ کن خبریں پھیلا کر سیاسی پارٹیاں اپنی روٹیاں سینک رہی ہیں۔ امت ، جے کے متل اور محمد عرفان کہتے ہیں کہ علاقے کے بھائی چارے کے ماحول میں پھوٹ ڈالنے کی سیاسی سازش کی جا رہی ہے۔ بھورا ، مکیش کمار اور نثار کا خیال ہے کہ یہ سب یہاں کے سیاسی لیڈروں کی سازش ہے۔ نوشاد علی ، محمد ارشد اور محمد اشرف کہتے ہیں کہ دوسال سے کیرانہ پُر امن تھا اب پھر سے نقل مکانی کی فہرست جار ی کر کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عبدالشمیم، سنجے کمار، مصطفےٰ ، مفید علی اور محمد قربان کا کہنا ہے کہ کیرانہ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اسلام چودھری، اسلام اوراروند کمار نے کہا کہ یہاں صرف غنڈہ گردی ہے۔ مرتضیٰ نواب، کامل چودھری اورمحمد انعام کا خیال ہے کہ اب اسے ہوا دینے کی کیا ضرورت ہے جب کاروبار اپنے معمول پر واپس آگیا ہے۔
تب ایک لاکھ کے انعامی روہتاس گرجر نے لیا تھا ’بابوجی‘ کا نام
چودہ سال قبل گرفت میں آیا ایک لاکھ کا انعامی بدمعاش روہتاس گرجر کی دہشت تین ریاستوں میں پھیلی ہوئی تھی۔ ایس او جی کی ٹیم نے اسے گرفتار کیا جس وقت روہتاس گرجر کو گرفتار کیا گیا تو اس کے پیروں میں جو جوتے تھے ان کی قیمت تقریباً ۱۶ہزار روپئے بتائی گئی تھی۔ جب میڈیا نے اس سے دریافت کیا کہ اتنے مہنگے جوتے کہاں سے خریدے تو اس نے کہا کہ یہ غیر ملکی ہیں۔ ’بابوجی‘ نے دلوائے تھے۔ حالانکہ یہ بات جب حکم سنگھ (بابو جی)تک پہنچی تو انہوں نے صفائی بھی دی تھی کہ کبھی میرے پاس وہ آیا تھا لیکن میں نے اسے اپنا تحفظ نہیں دیا۔ حکم سنگھ نے نقل مکانی کی جو فہرست جاری کی اس پر کیرانہ کے لوگ صرف یہی کہتے ہیں کہ بابو جی تو سیکولر سیاست کرتے تھے ہمارے نیتا تھے پتہ نہیں ایسی سیاست کیوں اختیار کی؟
گذشتہ پارلیمانی انتخابات کے دوران کیرانہ میں ووٹروں کی تعداد تقریباً ۶۹ہزار تھی اس میں مسلم ووٹروں کا فیصد تقریباً ۸۰ سے ۸۲فیصد ہے۔ بقیہ ووٹر ہندو ہیں۔ کیرانہ اسمبلی حلقہ سے سات بار ایم ایل اے منتخب ہو چکے حکم سنگھ کے ووٹروں میں تقریباً دس ہزار مسلمان بھی ہیں۔ کیرانہ قصبہ میں ۲۵وارڈ ہیں جس میں پانچ وارڈ ممبر ہندو ہیں۔ بقیہ تمام مسلمان۔ حکم سنگھ کی شبیہ یوں تو ٹھیک تھی لیکن نقل مکانی کی فہرست جاری کرنے کے بعد کیرانہ کے لوگ ان کے اس اقدام سے حیرت زدہ ہیں۔
نقل مکانی تو ہوئی لیکن کاروبار کے فروغ کیلئے
نقل مکانی کرنے والوں کی فہرت میں درج ایشور چندر متل کیرانہ سے باہر چلے گئے۔ پانی پت میں کولڈ ڈرنکس کا کاروبار کر رہے ہیں۔ ان کے دونوں بیٹے بھی اب وہیں ہیں۔ کیرانہ میں ان کا ذاتی مکان ہے، کولڈ ڈرنگ کا کاروبار بھی ہے لیکن یہاں کی تمام تر ذمہ داری منیم کی ہے۔ ان کے مکان میں تالا لگا ہوا ہے ۔دولاکھ روپئے رنگداری طلب کی گئی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے کیرانہ چھوڑ دیا۔ ان کے منیم رادھے شیام شرما کہتے ہیں کہ دو سال قبل ایشور چندر یہاں سے چلے گئے۔ راجہ بالا دیوی ۲۰۱۵ء میں کیرانہ سے شاملی نقل مکانی کر گئیں۔ ان کے دوبیٹوں سنجے شرما اور شنکر ورما کا قتل ہو گیا تھا۔ وہ کچہری میں دستاویز نویس کی ملازمت کر رہی ہیں۔ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ شاملی میں رہتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ کیرانہ میں مکان ہے لیکن اسے فروخت کر دیںگے۔ وہ دہشت زدہ ہیں اسی طرح کلدیپ ورما بھی اب دہلی منتقل ہو چکے ہیں۔ ایک سال قبل ہی وہ چلے گئے تھے وہاں ان کی زیورات کی دکان ہے۔ رنگداری کی وجہ سے انہوں نے بھی کیرانہ کو خیر باد کہہ دیا۔
جب ہندو مسلمانوں نے ایک ساتھ کیا تھا مظاہرہبند رکھا تھا کاروبار
کیرانہ میں ہندو مسلم کی تفریق کبھی نہیں ہوئی ۔ جب رنگداری کے سلسلہ میں کیرانہ میں مقیم کالا گروہ نے دو حقیقی بھائیوں راجندر اور شیو کمار کا قتل کیا تھا تو پورا کیرانہ ایک ساتھ تھا۔ سات روز تک بازار بند رہے تھے۔ تمام ہندو مسلم کاروباری باہم متحد تھے۔ سات دن تک تحریک چلائی گئی۔ کیرانہ کے وارڈ نمبر ۱۹سے کارپوریٹر ساجد علی کہتے ہیں کہ یہاں کبھی بھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی بگڑنے نہیں دی گئی۔ نقل مکانی کرنے کی وجہ اور ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا یہاں آئی پی ایس افسر پون کمارنے مقیم کالا گروہ کے نکیل ڈال دی تھی لیکن بعد میں ان کا تبادلہ ہو گیا۔
رام لیلا کے فنکاروں کو کردار سمجھاتے تھے حکیم اعظم علی
کیرانہ میں کسی زمانے میں اعظم علی نام کے ایک حکیم ہوا کرتے تھے رام لیلا کے فنکاروں کو وہ تربیت دیا کرتے تھے۔ ہندو مسلم اتحاد کی بہترین مثال تھے وہ۔ ۴۰برس تک فنکاروں کو تربیت دینے والے حکیم اعظم علی رام ،سیتا، لکشمن، ہنومان اور راون کے کردار کے بارے میں فنکاروں کو سمجھاتے تھے وہ خود رام لیلا میں ہرمونیم بجاتے تھے۔ راجہ کرن پال، اترم دت رانا کی بسائی ہوئی بستی کیرانہ میں کبھی بھی ہندو مسلم تنازعہ نہیں پیدا ہوا۔ بزرگ اردو صحافی ریاست علی تابش کہتے ہیں کہ کیرانہ میں اب جو بھی ہو رہا ہے وہ سیاسی ڈرامہ ہے۔ یہاں ہندو لوگ مسلم تہواروں پر انہیں مبارکباد دینے گھر پہنچتے ہیں اور مسلمان بھائی دیوالی کے موقع پر ہندوؤں کے یہاں مبارکبادی کیلئے جاتے ہیں۔
شرپسند عناصر سے سختی سے نمٹیں گے
کیرانہ میں نقل مکانی کرنے والوں کی فہرست کی جانچ انتظامیہ کے ذریعہ کرائی گئی ہے۔ اس کی رپورٹ ضلع مجسٹریٹ کو دے دی گئی ہے۔ یہاں قانون وانتظام کو متاثر کرنے والوں سے سختی کے ساتھ نمٹا جا رہا ہے ۔ کیرانہ میں خصوصی سلامتی دستوں کو تعینات کیاگیا ہے تاکہ وہاں کے ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کامیاب نہ ہو۔
وجے بھوشن
(ایس پی، شاملی)