HomeHighlighted Newsاردو صحافت کا دو سو سالہ تاریخ میں ملک اور قوم کی ترقی میں کلیدی رول،تاہم بعض تبدیلیوں کے ساتھ نئی نئی حسیت کو اجاگر کرنے کی اشد ضرورت۔ مقررین
اردو صحافت کا دو سو سالہ تاریخ میں ملک اور قوم کی ترقی میں کلیدی رول،تاہم بعض تبدیلیوں کے ساتھ نئی نئی حسیت کو اجاگر کرنے کی اشد ضرورت۔ مقررین
حیدرآباد 28 مارچ (یواین آئی) اردو صحافت نے اپنے دو سو سالہ تاریخ میں ملک اور قوم کی ترقی میں کلیدی رول ادا کیا ہیتاہم اس میں بعض تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ نئی نئی حسیت کو اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے جو وقت کا اہم تقاضہ ہے یہ بات یہاں بزم صدف انٹرنیشنل کی جانب سے منعقدہ ایوارڈ تقریب و جشن اردو صحافت کے دوسرے دن ’اردو صحافت کی دو صدی:عظیم وراثت اور عصر حاضر کے تقاضے‘کے موضوع پر منعقدہ بین الاقوامی سمینارسے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
ڈاکٹر مصطفی سروری ایسوسی ایٹ پروفیسرشعبہ صحافت مولاناآزادنیشنل اردو یونیورسٹی نے حیدرآباد میں اردو صحافت کی موجودہ تفصیلی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے شہر کے اخبارات کی خامیوں کی سمت بھی نشاندہی کی۔انہوں نے کہا کہ حیدرآباد کی اردو صحافت ان پیشہ وارانہ خطوط پر نہیں ہے جیسی کہ ہونی چاہئے۔
اردو صحافت اپنے اہداف سے ہٹ گئی ہے۔اس طرح اس نے دیگرزبانوں کی صحافت سے خود کوالگ کرلیا ہے۔اخبارات کی جانب سے غیر پیشہ وارانہ طریقے اختیار کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے ان کا قاری سے رشتہ ٹوٹ گیا ہے۔انہوں نے اردو اخبارات کے اداریوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ یہ اکثر وبیشتر انگریزی اخبارات کے اداریوں کے چربے ہوتے ہیں۔اردو کے اخبارات کے صحافتی ضابطہ اخلاق کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اداریوں میں ان انگریزی اخبارات کا حوالہ دیں جہاں سے یہ اٹھائے گئے ہیں۔اردو اخبارات کے ذمہ داروں کے پاس اس بات کا ڈاٹا نہیں ہے جس سے یہ پتہ چلے کہ اردو اخبارات کا قاری کیا چاہتا ہے، کتنے قاری ہیں؟
انہوں نے کہا کہ مسلم طبقہ کی خواندگی کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے تاہم افسوس اس بات کا ہے کہ اس ریڈرشپ کو اردو اخبارات اپنی طرف مائل نہیں کرپارہے ہیں۔
مجلس صدارت سے وابستہ وائس آف امریکہ کے نمائندہ سہیل انجم نے اردو صحافت کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی۔انہوں نے اردو کی مذہبی صحافت کے گوشوں کا احاطہ کیااور دینی مدارس سے نکلنے والے مجلات کی تفصیلات سے واقف کروایا۔انہوں نے کہا کہ ان مجلات کی تعداد تقریبا 40ہے۔انہوں نے کہاکہ مذہبی صحافت کا وسیع منظرنامہ پونے دو صدی قدیم ہے۔ڈاکٹرسہیل وحید نے صحافت کی زبان کے حوالے سے اپنا مقالہ پیش کیا۔مجلس صدارت میں شامل تاثیر اخبار کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر محمد گوہر نے ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اردو پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتاجارہا ہے۔اس سے اردو کا فروغ ہورہا ہے۔انہوں نے اردو صحافت کے حوالہ سے منفی باتوں کو پھیلانے سے گریز کا مشورہ دیا۔
مجلس صدارت کرتے ہوئے معروف نقاد حقانی القاسمی نے کہاکہ اردو صحافت کو توانائی کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ صحافت کے مسائل پر بات کرنے کے ساتھ ساتھ حل پر توجہ دینی چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ صحافت صارفیت کی مشین بن گئی ہے۔معروف شاعر مسعود حساس (کویت) نے صحافت کے لئے مستقبل کے لائحہ عمل تیار کرنے پر زور دیتے ہوئے کہاکہ اسی وقت اردو اخبارات صحافت معیار پر قائم رہیں گے جب تک ہم جب ان کے لوازمات کا خیال نہ رکھیں۔
مجلس صدارت میں شامل دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے استاذ پروفیسر ابوبکر عباد نے مقالوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا اور مقالہ نگاروں کو اہم مشورے دیئے کہ اس طرح کے مقالہ لکھنے کے دوران کن کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔مجلس صدارت میں شامل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق استاذ اور فکشن نگار پروفیسر غضنفر علی نے اہم تجریئے پیش کرتے ہوئے صحافت کے اہم نکات کی طرف اشارہ کیا۔
مجلس صدارت میں شامل یواین آئی اردو کے سرکردہ صحافی عابد انور دہلی نے کہاکہ اردوصحافت کے 200سال کی تاریخ اردو یواین آئی سروس کے حوالہ کے بغیر مکمل نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ یواین آئی کی اردو سروس سے ہندوستان کے اردو اخبارات میں ایک نیا انقلاب آیا اور یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ ہندوستان میں اردو صحافت کی نقیب اردو یواین آئی ہے۔اسی سروس کی وجہ سے آج ملک سے اتنی بڑی تعداد میں اردو اخبارات نکل رہے ہیں۔اس کی شروعات سے پہلے کسی بھی اردو اخبار کو نکالنے کے لئے 50تا60اسٹاف وارکان درکارہوتے تھے تاہم یواین آئی اردو کے آغاز کے بعد اب صورتحال بدل گئی ہے اور5تا6افراد کے ساتھ بھی اب کوئی بھی اخبار نکالاجاسکتا ہے۔انہوں نے اردو یواین آئی کی خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ کوشش اس بات کی ہوتی ہے کہ معیار کے ساتھ ساتھ ان خبروں کا پیمانہ بھی ہو۔
مسٹر عابد انور نے کہاکہ ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا چاہئے کہ اردو اخبارات کے معیار میں کمی آئی ہے۔نیوز اور ویوز کا فرق بہت تیزی سے مٹ رہا ہے۔نیوزسے اخبار کی شناخت ہوتی ہے نہ کہ ویوز سے۔انہوں نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ قومی خبروں کی جگہ اخبارات میں کم ہوتی جارہی ہے۔جس علاقہ کا اخبار ہے، اس علاقہ کی خبریں شائع ہورہی ہیں۔
کولکتہ کے بھیرب کالج کے استاذ طیب نعمانی نے اپنے مقالہ میں کلکتہ (موجودہ کولکتہ)میں اردو صحافت کے آغاز، ارتقا اوراس کی ترقی کے مختلف منازل کی سمت نشاندہی کرتے ہوئے اس کی تفصیلات سے واقف کروایا۔انہوں نے کہاکہ اردواخبار کی ابتدا کا شرف کولکتہ کو نصیب ہوا جہاں سے 27مارچ 1822کو اردو کا پہلا اخبار شائع ہوا۔ساتھ ہی کلکتہ میں اردو نثر کی ترویج بھی ہوئی۔انہوں نے کہاکہ 1830میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ انگریزوں نے دیا جس کا اثر اردو ادب پر پڑتا چلاگیا۔انہوں نے کہا کہ یکم اپریل 1822کو فارسی کا پہلا اخبار شروع کیاگیا۔انہوں نے مابعد آزادی بنگال میں اردو اخبارات کے چلن کا احاطہ کیا اورساتھ ہی الہلال اور البلاغ کا بھی حوالہ دیا۔انہوں نے ساتھ ہی اخبار مشرق کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ یہ اخبار کولکتہ سے نکلنے والا پہلا آفیسٹ پر شائع ہونے کا اعزاز رکھتا ہے۔ ڈاکٹر رمیشہ قمرنے اردو صحافت کا رنگ وآہنگ کے موضوع پر مقالہ پیش کرتے ہوئے بعض اخبارات کی زرد صحافت کی طرف نشاندہی کی۔محترمہ رفیعہ نوشین سماجی جہد کار نے اپنے مقالہ میں صحافت میں خواتین کی صورتحال اور ان کو درپیش مسائل کا تفصیلی جائزہ لیا۔انہوں نے خاتون صحافیوں کے مسائل بھی اٹھائے۔پرویز عالم ریسرچ اسکالر (پٹنہ)نے اپنے مقالہ میں ماقبل آزادی پریس سنسر شپ پر کھل کر اظہار خیال کیا اور کہا کہ انگریزی حکومت کی جانب سے اردو اخبارات پر قدغن لگائی جاتی تھی اور سنسر شپ کا باقاعدہ محکمہ اس کے لئے کام کرتا تھا۔ محمد مرجان علی ریسرچ اسکالر،ریسرچ اسکالر شبنم پروین،حیدرآباد کے سینئر صحافی سجاد الحسنین نے بھی مقالہ پڑھے۔صفدر امام قادری ڈائرکٹر بزم صدف انٹرنیشنل اور شہاب الدین احمد چیرمین بزم صدف انٹرنیشنل نے معاونین کو توصیفی سند سے نوازا۔مسٹر صفدرامام نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے سیمنار کے موضوعات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔