ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے جوہری معاہدے میں واپسی پر شرط رکھتے ہوئے کہا کہ یہ حتمی فیصلہ ہے کہ معاہدے کی بحالی کے لیے امریکا پابندیاں ختم کرے۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ’تہران کا فیصلہ حتمی اور ناقابل واپسی ہے کہ 2015 کے جوہری معاہدے میں واپسی اس صورت ممکن ہے جب امریکا پابندیاں ہٹا دے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ایران نے معاہدے میں شامل تمام شرائط کی پورے کیے ہیں لیکن امریکا اوریورپی ممالک نے ایسا نہیں کیا’۔
ایرانی فضائیہ کے کمانڈرز کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘اگر وہ چاہتے ہیں کہ ایران معاہدے پر واپس آئے تو امریکا کو عملی طور پر تمام پابندیاں ختم کرنی ہوں گی’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اس کے بعد جب تمام پابندیوں کے درست طور پر خاتمے کی تصدیق ہوگی تو پھر ہم تمام وعدوں پر واپس آئیں گے، یہ فیصلہ حتمی اور ناقابل واپسی ہے اور اس پر ایران کے تمام عہدیداروں کا اتفاق ہے’۔
یاد رہے کہ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں جوہری معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے ایران پر پابندی بحال کردی تھیں جس کے نتیجے میں ایران اور امریکا کے درمیان دہائیوں سے جاری کشدگی میں شدت آگئی تھی۔
امریکا میں 3 نومبر 2020 کو ہوئے صدارتی انتخاب میں فتح حاصل کرنے والے جوبائیڈن نے جوہری معاہدے میں واپسی کے اشارے دیے ہیں جو 20 جنوری کو امریکا کےصدرکی حیثیت سے منصب سنبھال لیں گے۔
امریکا کے نومنتخب صدر نے عندیہ دیا تھا کہ وہ معاہدے میں واپسی کے بعد ایران کے ساتھ واضح انداز میں بات کرناچاہتے ہیں جس میں خاص کر میزائل اور مشرق وسطیٰ سمیت خطے میں اثر رسوخ شامل ہے۔
دوسری طرف آیت اللہ خامنہ ای نے کہا تھا کہ جوبائیڈن کے صدر بننے کے بعد 2015 کے جوہری معاہدے میں امریکا کی واپسی کی ہمیں جلدی نہیں ہے۔
ان کا کا کہنا تھا کہ معاہدے میں امریکا کی واپسی کا سوال نہیں ہے بلکہ دو طرفہ پابندیاں ہٹانے کی بات ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ‘ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے اور ہم ان کی واپسی پر اصرارنہیں کر رہے ہیں، ہمارا مطالبہ منطقی اور عقلی بنیاد پر ہے کہ وہ پابندیاں ہٹا دی جائیں جو ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں عائد کی تھیں’۔
سپریم لیڈر نے واضح کیا تھا کہ ایران پابندیوں کے خاتمے کے بعد ہی امریکا کی جوہری معاہدے میں واپسی پر خیر مقدم کرے گا کیونکہ ہم ایک حق کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو ایرانی قوم سے چھینا گیا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ‘اگر پابندیاں ہٹادی جاتی ہیں تو اس کے بعد امریکا کی واپسی کی وجہ ہوسکتی ہے’۔
ایران نے 2019 سے جوہری معاہدے پر بتدریج پیچھے ہٹنا شروع کردیا تھا اور یورینیم افزودگی میں اضافہ کردیا تھا۔
ایران نے امریکی حملے میں قدس فورس کے سربراہ کی ہلاکت کے بعد عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 میں کیے گئے جوہری معاہدے سے مکمل طور پر دستبرداری کا اعلان کردیا تھا۔
جوہری معاہدے میں شامل برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایران پر معاہدے پر من و عن عمل کرنے کے لیے زور دیا تھا لیکن ایران بدستور اس کو مسترد کرتا رہا ہے۔
ایران کا مؤقف تھا کہ ‘جب معاہدے کے تمام فریق عملی طور پر عمل نہیں کررہے ہوں تو صرف ایران پر زور نہیں دیا جاسکتا، اگر وہ اپنے وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں تو ہم بھی واپس آئیں گے’۔