آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف سڈنی میں طائف یونیورسٹی کی طالبہ جواہر الحارثی نے ایک نایاب طبی دریافت کرلی ہے۔ یہ دریافت فیٹی لیور کی بیماری کے خطرے کو روکتی اور فیٹی لیور کے مریضوں کرونا کی پیچیدگیوں سے بھی بچاتی ہے۔
تحقیقی مطالعے میں ایسے عوامل کو دریافت کرلیا گیا ہے جو فیٹی لیور کی بیماری کی پیچیدگیوں کے زیادہ خطرے کا باعث بنتے ہیں۔ ان عوامل پر مزید عمل کرکے ان بیماریوں کے لیے جدید علاج تیار کرنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ جواہر الحارثی نے اپنی نایاب تحقیقی دریافت کو سائنسی جریدے نیچر کمیونیکیشنز میں شائع کرایا ہے۔
سعودی پریس ایجنسی کو بیان دیتے ہوئے جواہر الحارثی نے وضاحت کی کہ یہ نایاب طبی دریافت فیٹی لیور کی بیماری سے تحفظ فراہم کرتی ہے اور فیٹی لیور کے مریضوں میں کورونا کی پیچیدگیوں کو کم کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا میں اپنے مطالعے کے دوران اہم جینز کی شناخت کرنے میں کامیاب ہوگئی ہوں۔ ان جینز کی کمی جسم کے افعال میں شدید خرابی پیدا کرتی ہے۔
اور سوزش والی سائٹوکائنز کی بڑھتی ہوئی شرح سے مدافعتی سرگرمی میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں کام کرنے والی ٹیم کے ساتھ ایک ایسی ترمیم کرنے میں کامیاب ہو گئی ہوں جو خلیے میں جین کو اس کی معمول کی سطح پر بحال کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ یہ دریافت مذکورہ بالا بیماریوں کے علاج میں ایک بڑی چھلانگ ثابت ہوگی۔ یہ ایک نئی طبی کامیابی ہے۔ خاص طور پر چونکہ فیٹی لیور کی بیماری دنیا بھر میں سب سے زیادہ عام بیماریوں میں سے ایک ہے اور دنیا کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی کو متاثر کر رہی ہے اس لیے بھی اس دریافت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک بھی ان ملکوں میں شامل ہیں جہاں فیٹی لیور کی شرح زیادہ ہے۔
جواہر الحارثی نے مزید کہا کہ میں نے جو تحقیق کی تو میں اس نتیجے پر پہنچی کہ کورونا کے ساتھ فیٹی لیور کے مریضوں میں اموات میں اضافے کی وجہ جینیاتی عنصر ہے۔ کیونکہ وائرس میں انسان کے جینیاتی میک اپ کو تبدیل کرنے کی صلاحیت ظاہر ہوتی ہے اس کے نتیجے میں بیماری کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوجاتا ہے اور ، فیٹی لیور کے مریضوں کی حالت بگڑ جاتی ہے۔
حالیہ مطالعہ کے ذریعے میں ایک اہم جین (MBOAT7) کی درست طریقے سے شناخت کرنے میں کامیاب رہی ہوں جس کی سطح فیٹی لیور کی بیماری اور کوویڈ 19 دونوں کی موجودگی میں شدید طور پر کم ہو جاتی ہے۔ اس کی کمی ایک سنگین بیماری کا باعث بنتی ہے۔