لکھنؤ : کورونا وباکے درمیان رعایت کیا ملی لکھنؤ کے لوگ کورونا وباکوہی بھول گئے۔ لکھنؤ کےبازاروںکو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب یہاں پر کورونا نا م کی بیماری نہیںرہی۔ مستقل طور سے کھلتابازار اور یہاںپر ہوتی بھیڑ کہیں پریشانی نہ پیداکر دے۔
شہرکےباشندوں کے علاوہ دیہی علاقہ کے لوگوںکو بھی کورونا وائرس کے انفیکشن کا خوف نظرنہیںآرہا ہے۔ لاک ڈاؤن میں ملی رعایت پر عمل کرنے کے بجائے لوگ خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کھولے جانےکے دوران بازاروںکومقررہ وقت میں کھولے جانے کی راحت حکومت نے اس شرط کے ساتھ دی ہے کہ حکومت کی گائڈلائن پر عمل کرنا ہے۔ اگرقوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہےتو شہر کے بازاروں میں لاک ڈاؤن پھرسے عائدکیاجاسکتا ہے لیکن لکھنؤ والوں نے ان سب باتوںکو درکنارکرتے ہوئے اپنےخود کے قانون پر چلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ نہ سماجی فاصلہ اورنہ ہی ماسک کااستعمال ۔ ان سب قوانین کی کھلے عام خلاف ورزی آسانی کے ساتھ دیکھی جاسکتی ہے۔امین آباد ، نخاس اور اکبری گیٹ میں روز کی طرح گاہکوںکی بھیڑ امنڈ رہی ہے۔ کپڑادکانوںکےساتھ ہی کرانہ کی دکانوںپرسماجی فاصلہ کی دھجیاں اڑتے آسانی سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ نہ توا س معاملہ میں کاروباریوںکوکوئی خوف ہے اورنہ ہی گاہک احتیاط برتناچاہتے ہیں۔ یقینی طور پر اگرحالات ایسے ہی رہے تو کورونا وائرس کا انفیکشن لکھنؤ میں پھیلنے میں دیرنہیں کرے گا۔ سماجی خدمت گار اجیت سنگھ کا کہنا ہےکہ علاقائی پولیس کوایسے لوگوںپر کارروائی کرنا ہوگی جوماسک اور سماجی فاصلہ پرعمل نہیںکر رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ لاپروائی سبھی کیلئے خطرناک ہوسکتی ہے۔ نخاس کے ایک دکاندارنے بتایاکہ اپنی طرف سے گاہکوںکو سماجی فاصلہ کی جگہ دے رکھی ہے۔ ساتھ ہی ماسک کا استعمال کرنےکیلئے بڑے الفاظ میں نوٹس بھی چسپاںکررکھا ہے، کئی گاہکوںکوبغیرماسک کے واپس کر دیا ہے۔