سوئٹزرلینڈ: شہری اپنے زندگی سے تنگ آ کر انسانیت سے چھٹی لے کر بکری بن گیا لیکن اسے بکری بن کر احساس ہوا کہ بکریوں کی زندگی بھی کچھ آسان نہیں ہوتی۔
لندن کا شہری تھامس تھویٹس اپنی بے روزگاری اور رو ز مرہ کے مسائل سے بہت تنگ تھا۔ ایک دن اپنے دوست کے کتے کے ساتھ ٹہلتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ جانوروں کی زندگی کس قدر پرسکون اور بے فکر ہے۔ بس یہ خیال آتے ہی اس نے جانور بننے کا فیصلہ کر لیا۔ پہلے اس کے ذہن میں کتا بننے کا خیال آیا لیکن گوشت سے دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے یہ خیال قابل عمل نہ تھا۔ پھر اس نے ہاتھی بننے کا سوچا لیکن یہ بھی کچھ مشکل تھا آخر کار اس نے بکری بننے کا فیصلہ کر لیا۔ یوں تھامس لندن کی زندگی چھوڑ کر سوئٹزرلینڈ کے گاؤں میں بکری بن کر رہنے لگا۔
تھامس کے لیے بکری بننے کے 2 فائدے تھے ایک تو وہ اپنی زندگی کے مسائل سے آزاد ہو سکتا تھا دوسرا بکریوں کی نفیسات پر مطالعہ بھی کر سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے اس منصوبے کے لیے یونی ورسٹی سے گرانٹ بھی حاصل کر لی۔ بالکل بکریوں جیسا محسوس کرنے کے لیے اسے پروستھیٹک ٹانگیں لگائی گئیں اور خصوصی ہیلمٹ بھی پہنایا گیا۔ تمام تیاری مکمل کرنے کے بعد تھامس نے 2 ٹانگوں کی بجائے چار ٹانگوں سے چلنا اور سوئٹزرلینڈ کے ایک دور دراز گاؤں میں بکریوں کے ساتھ رہنا شروع کر دیا۔
ابتدائی تجربے کے طور پر تھامس 3 دن تک بکریوں کے ساتھ رہا اور بالکل ان جیسا محسوس کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران اس نے بکریوں کے ساتھ گھاس بھی کھائی۔ تھامس کا کہنا تھا کہ بکریوں کی زندگی ابتدا میں بہت اچھی محسوس ہو رہی تھی بلکہ بکریاں انسانوں سے بہتر لگ رہی تھیں جو ہر چیز سے بے فکر اپنی زندگی گزار رہی تھیں۔ تھامس کے مطابق پہلے دن بکریاں مجھ سے دور دور رہیں شاید وہ مجھے میری اوقات میں رکھنا چاہتی ہیں، میرے لیے سب سے خوشی کا لمحہ وہ تھا جب کافی دیر بعد ایک بکری نے میرے ساتھ ساتھ چلنا شروع کیا شاید اس نے مجھے اپنے قبیلے میں قبول کر لیا تھا لیکن مجھے اس چیز کا بھی ڈر تھا کہیں کوئی بکری اپنے نوک دار سینگھ میرے پیٹ میں نہ گھسا دے۔
پہلے 3 دن تھامس نے بطور بکری ریوڑ کے ساتھ گزارے اور اس کے بعد 3 دن الگ تھلگ مختلف وادیوں کے دھکے کھائے۔ بکری کی ٹانگوں سے چلنے کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے متعدد بار وہ ڈھلوانوں سے پھسل کر بھی گرا اور زندہ رہنے کے لیے مسلسل گھاس کھاتا رہا۔ آخر کار تھامس کو احساس ہوا کہ بکریوں کی زندگی بھی کوئی آسان نہیں اس لیے انسان بننے میں ہی عافیت ہے۔