اب یہ جاننا ممکن نہیں کہ سہراب الدین کا قتل کیوں کروایا گیا اور اِس کے پیچھے کون لوگ تھے؟
سہراب الدین، اُس کی اہلیہ کوثر بی اور دوست تلسی رام پرجاپتی کے فرضی انکاؤنٹر کیس کی سماعت کرنے والے جج نے اپنی بے بسی اور مجبوری کا اظہار کرتے ہوئے تمام ۲۲/ملزمین کو ناقص جانچ، ناکافی ثبوت اور گواہوں کے انحراف کی وجہ سے بری کر دیا۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ اُنہیں جج لویا کا حشر معلوم تھا اِسی لئے خود کو مجبور تصور کرتے ہوئے تمام خاطیوں کو بری کردیا؟ سی بی آئی نے اِس معاملہ کو پہلے ہی کمزور کر دیا تھا۔ ملزمین کو بچانے کیلئے سی بی آئی پر دباؤ بنایا گیا تاکہ وہ عدالت میں اُن کے خلاف کوئی ثبوت نہ پیش کر سکے۔
سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر معاملہ میں ایک مخصوص طبقہ کو عدالتی کشاکش اور مقدمات سے بچانے کے مقصد سے ایسا کیا گیا اور ایسا کرنے سے متاثرین کو انصاف نہیں مل سکا۔ انصاف کی جدوجہد کو جانبداری سے پاک ہونا چاہئے۔ جس طرح سے تحقیق اور پیروی کی جانی چاہئے تھی، نہیں کی گئی۔ ۹۲/گواہوں کے انحراف کی وجہ سے سی بی آئی کی خصوصی عدالت میں استغاثہ ملزموں کا تعلق ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ یہ بھی کیسے ممکن ہے کہ اِتنی بڑی تعداد میں گواہ منحرف ہو جائیں؟
میڈیا رپورٹس کے مطابق سہراب الدین شیخ ایک معمولی مجرم تھا۔۰۰۵ ۲ء میں گجرات اے ٹی ایس نے سہراب الدین، اُس کی اہلیہ کوثر بی اور دوست تلسی رام پرجاپتی کو حیدرآباد سے اُس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ سانگلی جا رہے تھے۔ ایک پولیس ٹیم نے بس کا تعاقب کرتے ہوئے تینوں کو گرفتار کیا تھا اور اُنہیں احمد آباد لے جایا گیا تھا۔ گجرات پولس نے دعویٰ کیا تھا کہ سہراب الدین ایک خطرناک دہشت گرد ہے جسے گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کا قتل کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا۔ گجرات کے گاندھی نگر میں پولیس افسران کے ہاتھوں سہراب الدین کی بیوی بھی ماری گئی تھی۔
جوڑے کے ساتھ موجودتلسی رام پرجاپتی، جو اہم گواہ بھی تھا اُس کا ایک سال بعد قتل ہو گیا تھا۔ لیکن۰۰۷ ۲ء میں گجرات پولیس افسران کی ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے اِسے ایک فرضی انکاؤنٹر بتاتے ہوئے سینئر آئی پی ایس افسر ڈی جی ونجارا سمیت کئی پولیس افسران کو گرفتار کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اِس معاملہ کو سی بی آئی کے سپرد کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت کو گجرات سے باہر منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔ سی بی آئی نے ثبوت کے طور پر فون کال کے ریکارڈ پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ امیت شاہ انکاؤنٹر کرنے گئی ٹیم کے ساتھ براہ راست رابطہ میں تھے۔
واضح طور پر اِس معاملہ میں استغاثہ اور تحقیقاتی ایجنسیاں اپنا مثبت کردار ادا کرنے میں پوری طرح ناکام رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاسی اشاروں پر کام کر رہی تھیں۔ اب یہ جاننا ممکن نہیں کہ سہراب الدین کا قتل کیوں کروایا گیا اور اِس کے پیچھے کون لوگ تھے؟ عدالت کے حالیہ فیصلہ سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب سارے ملزم بے قصور ہیں تو کیا سہراب الدین اور تلسی رام پرجاپتی معاملہ میں گجرات اور راجستھان کے چھوٹے عہدے کے پولیس والوں نے یہ سازش رچی اور اُنہیں مار دیا؟ یہ بات آسانی سے ہضم ہونے والی نہیں۔
اِس معاملہ میں معروف شاعر، نغمہ نگار جاوید اختر اور سماجی کارکن شبنم ہاشمی نے قابل وکیل پرشانت بھوشن کے ذریعہ خاطیوں کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔ سہراب الدین انکاؤنٹر معاملہ میں ۳۸/افراد کے خلاف فردِ جرم داخل کی گئی تھی۔ اِن میں بی جے پی صدر امیت شاہ، راجستھان کے وزیر داخلہ گلاب چند کٹاریہ، گجرات پولیس کے سابق سربراہ پی سی پانڈے، سابق اعلیٰ پولیس عہدیدار ڈی جی ونجارا اور دیگر پولیس ملازمین سمیت ۱۶/لوگوں کو عدالت نے پہلے ہی ڈسچارج کر دیا تھا۔
جبکہ بی جے پی صدر کیلئے عدالت نے یہ دلیل دی تھی کہ اُن کے خلاف مقدمہ سیاسی بنیاد پر دائر کیا گیا تھا جو کہ اُس وقت گجرات کے وزیر داخلہ تھے۔ سی بی آئی نے اِس فیصلہ کے خلاف اوپری عدالت میں اپیل بھی نہیں کی تھی۔ کیا حکومتوں کے بدل جانے کے بعد عدالتوں کے انداز بھی بدل جاتے ہیں؟ حالیہ عدالتی فیصلہ پر راہل گاندھی نے طنزیہ ٹویٹ کیا کہ ’’ہرین پانڈیا، تلسی رام پرجاپتی، سہراب الدین، کوثر بی اور جسٹس لویا کو کسی نے نہیں مارا وہ ایسے ہی مر گئے۔‘‘ شاعر نے اِنہی جذبات کا شعری اظہار اِس طرح کیا ہے ؎
دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈو گے تو اِس شہر میں قاتل نہ ملے گا