لکھنؤ: شہریت کے قانون کے خلاف مظاہرے کے دوران لکھنؤ کے کئی اہم مقامات پر بہت سے ہورڈنگ لگائے گئے ہیں ، جن میں ملزموں کی تصاویر اور پتے بھی شامل ہیں جو تشدد اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانے والے ہیں۔ ان لوگوں سے سرکاری املاک کو پہنچنے والے نقصان پر جرمانہ ادا کرنے کو کہا گیا ہے۔
آپ کو بتادیں کہ 19 دسمبر کو لکھنؤ میں شہریت کے قانون کے خلاف بہت سارے مظاہرے ہوئے تھے۔ اس تشدد کے دوران عوامی املاک کو بھی نقصان پہنچا۔ آویزاں بورڈوں میں لکھا گیا ہے کہ اگر یہ لوگ جرمانہ ادا نہیں کرتے ہیں تو ان کی جائیداد ضبط کر لی جائے گی۔
تاہم ، یہ ابھی تک واضح نہیں ہوا ہے کہ جب ان افراد کو پہلے ہی ذاتی سطح پر نوٹس دیا گیا ہے ، تو پھر ان میں ایکٹیویسٹ صدف جعفر ، وکیل محمد شعیب ، تھیٹر سے وابستہ دیپک کبیر ، سابق آئی پی ایس ایس آر داراپوری،مولانا سیف عباس نقوی کے ساتھ ساتھ مشہور عالم دین اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر ڈاکٹرکلب صادق کے فرزند ڈاکٹر سید کلب سبطین نوری بھی شامل ہیں۔
قومی آواز سے گفتگو کرتے ہوئے ان میں سے کچھ نے کہا کہ یوگی سرکار کے ظلم و ستم کے خلاف اعلی عدالت سے رجوع کیا جائےگا۔کیونکہ جو لوگ بے قصور پھنسائے گئے ہیں حکومت انکےمبینہ جرائم کو تا دم تحریر ثابت نہیں کر سکی ہے اور پروپگنڈہ مشینری کا سہرا لیکر غیر جمہوری طریقوں سے نہ صرف ظلم و زیادتی کو روا رکھا جا رہا ہے بلکہ آئین میں دستیاب جمہوری احتجاجات کی بھی اجازت نہیں ہے۔
چاند کمیٹی کے صدر مولانا سید سیف عباس نقوی نے قومی آواز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب قانون کی پاسادری کرتے ہیں اور اس سلسلے میں سرکار کی زیادتیوں کا جواب عدلیہ کے ذریعے دیا جائے گا۔
انہوں نے گزشتہ 19 دسمبر کے احتجا پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ ضرور گئے تھے مگر سب معاملہ پر امن رہا اچانک بیچ میں کہاں سے سماج دشمن عناصر نے تشدد کردیا۔یہ کون لوگ تھے؟انکو کیوں چھپایا جا رہا ہے اور بے قصور افراد کو مقدمات میں پھانس کر انکے گھروں کی قرقی کا اعلان کیا جا رہا ہے۔
اسی دوران یوگی وزارت کے ایک وزیر محسن رضا کا ایک ویڈیو وائرل کیا جا رہا ہے جس میں وہ شہر کے ایک علاقے میں اس بورڈ کے سامنے کھڑے ہوکر َغداروں،اور ملک کو توڑنے والے َسازش کرنے والوں َکے خلاف بیان دے رہے ہیں۔اقلیتی وزارت کے وزیر محسن رضا کو اس دوران سوشل میڈیا پر خوب تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔
ڈاکٹر مولانا سید کلب سبطین نوری نے بتایا کہ یوگی سرکار نے جس طرح سے بے قصور افراد کو پھنساکر انکو ذلیل و رسوا کرنے کی سازش رچی ہے ہم اس سے ڈرنے والے نہیں ہیں،ہم نے اپنے حق کے لئے احتجاج میں شرکت کی اور لکھنو میں ١٩ دسمبر کو جس طرح سے ہنگامہ برپا کیا گیا تھا اس میں ہم سب کا کوئی ہاتھ نہیں تھا بلکہ ایک منظم سازش کے تحت سماج دشمن عناصر اور پولیس کو سرگرم کر کے تشدد کے مناظر پیش کئے گئے۔
کلب سبطین نوری نے مطالبہ کیا کہ یوگی سرکار اس پورے واقعہ کی تحقیقات الہ آباد ہائی کورٹ کے کسی بھی سبکدوش جج سے کیوں نہیں کرا رہی ہے،اسکی وجہ یہ ہے کہ پولیس اور بھگوا دھاری ذہنوں کی کارستانی کھل کر سامنے آجائے گی۔
آپ کو بتائیں کہ ضمانت دیتے وقت عدالت کو پتہ چلا ہے کہ پولیس ان میں سے بہت سے افراد کے خلاف الزام ثابت کرنے کے لئے ثبوت فراہم نہیں کر سکی ہے۔ فروری کے مہینے میں بھی ، الہ آباد ہائی کورٹ نے کانپور کے ایک شخص کے خلاف جائیداد ضبط کرنے کے حکومتی حکم پر اسی طرح روک دیا تھا۔