ممبئی: مہاراشٹرمیں سیاسی رسہ کشی کے درمیان شیو سینا، این سی پی اورکانگریس کی قیادت والی ادھوحکومت نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا۔ اس دوران ادھو حکومت کی حمایت میں 169 ووٹ پڑے جبکہ 4 اراکین اسمبلی نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ مخالفت میں ایک بھی ووٹ نہیں پڑا۔
اس کےعلاوہ اپوزیشن جماعت بی جے پی نے واک آؤٹ کیا۔ ادھوٹھاکرے کواپنے چچازاد بھائی راج ٹھاکرے کی پارٹی مہاراشٹرنونرمان سینا (ایم این ایس) سے ووٹ کی امید تھی، حالانکہ فلورٹسٹ کے دوران ایم این ایس نے حکومت کے حق میں ووٹ نہیں کیا۔ مجلس اتحاد المسلمین کے دو ایم ایل اے، سی پی ایل اورایم این ایس کے ایک ایک رکن اسمبلی نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
اس سے قبل بی جے پی کے اراکین اسمبلی نے ایوان میں ہنگامہ کیا۔ دیویندرفڑنویس نے کہا کہ اسمبلی کا سیشن غیرآئینی طریقے سے بلایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے رات ایک بجے اطلاع دی گئی۔ حالانکہ اس دوران ادھو ٹھاکرے نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا ہے۔ حالانکہ بی جے پی نے اسمبلی میں ادھوٹھاکرے کےفلورٹسٹ سےقبل اپنا آخری داؤں چل دیا ہے۔ پارٹی نے پروٹم اسپیکرکے معاملے کوگورنرسے لے کرسپریم کورٹ تک میں چیلنج دینےکا فیصلہ کیا ہے۔
بی جے پی کےاس رخ سے یہ سوال اٹھتا ہےکہ بی جے پی آخرکارچاہتی کیا ہے؟ دراصل بی جے پی چاہتی ہے کہ اعتماد کی ووٹنگ پربحث پہلے سے نامزدکئےگئے پروٹم اسپیکرکالی داس کولمبرکی نگرانی میں ہو، جبکہ ادھوحکومت دلیپ والسے پاٹل کوپروٹم اسپیکربنا کر اعتماد کی ووٹنگ پربحث چاہتی ہے۔ ذرائع کی مانیں توبی جے پی ٹرسٹ ووٹ (اعتماد کا ووٹ) پربحث سے قبل اسمبلی اسپیکرکےالیکشن پرشیوسینا – این سی پی اورکانگریس کے اتحاد سے دودوہاتھ کرنےکی تیاری میں ہے۔ پارٹی نےاسمبلی اسپیکرکےلئےاپنی طرف سے امیدوارکھڑا کرکےاسپیکرکےالیکشن کو دلچسپ بنا دیا ہے۔ عام طورپراسمبلی اسپیکرکا الیکشن اعتماد کی ووٹنگ سے قبل ہوتا ہے، لیکن مہاراشٹرکی سیاست کی رسہ کشی اور دیویندرفڑنویس حکومت کے فلورٹسٹ پرسپریم کورٹ تک معاملہ پہنچنےکےبعد اب اسمبلی اسپیکرکا عہدہ بی جے پی کے لئےاہم ہوگیا ہے۔ دراصل، دیویندر فڑنویس کے وزیراعلیٰ بننے اوراعتماد کا ووٹ حاصل کرنے سےقبل ہی دیویندرفڑنویس کے ذریعہ استعفیٰ دینے سے ہوئی فضیحت کوبی جے پی یوں ہی بھلانےکےلئےتیارنہیں ہے۔