ممبئی: ریاست مہاراشٹرمیں اوقاف کی جائیدوں کی تحفظ کے لیے آج یہاں نامور عالم دین مولانا معین الدین اشر ف ( معین میاں) کی سرپرستی میں ”تحریک اوقاف ” کا اعلان کیا گیا جس کے ذریعہ ریاست گیر سطح پر اوقاف کی جائیدادوں کی تحفظ کے لیے مہم چلائی جائے گی جس میں سرکاری قبضہ میں زمینات کوآزاد کرانا نیز ان سے بازار کے موجودریٹ کے حساب سے کرایہ حاصل کرنا بھی شامل ہے ۔
اس سلسلہ میں ممبئی میں منعقدہ ایک پریس کانفریس میں خطاب کرتے ہوئے عروس البلاد ممبئی سمیت مہاراشٹر کی اہم مسلم شخصیات نے خطاب کیاجس کے دوران مسلم پسماندہ طبقات کی تنظیم آل انڈیا مسلم او بی سی آرگنائزیشن کے قومی صدر شبیر احمد انصاری نے بھی اظہار کیا اور کہا کہ ہندوستان کی آزادی کی بعد سے اوقاف کی جائیدادوں کی پورے ملک میں تحفظ کی آوازیں اٹھتی رہی ہیں ،مگر کوئی مضبوط و موثر تحریک نہ ہونے کی وجہ سے اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکیں۔ نیز اوقاف کی جائیداوں کو ہمارے بزرگوں نے جس مقصد کے لیے وقف کیا تھا وہ مقاصد حاصل نہیں ہوپارہے ہیں ،املا ک کے ساتھ مسلمانوں ہی نہیں بلکہ حکومتوں نے بھی بے شمار وقف املاک پر قبضہ جما رکھا ہے ،جس کا وقف بورڈ اور مسلمانوں کوکوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اوقاف کی جائیدادوں کی تحفظ کے لیے منظم طریقے سے ایک تحریک چلایا جانا وقت کی ضرورت ہے
انہوں نے کہا کہ ان کی آرگنائزیشن نے گزشتہ چھ ماہ سے پورے مہاراشٹر کا دورہ کرکے وقف املاک سے کس طرح مسلمانوں کو خاطر خواہ فاہدہ پہنچایا جاسکتا ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ وقف بو رڈ کو کس طرح فعال اور موثر بنایا جا ئے اس پر غور خوض کیانیز آرگنائزیشن نے اپنے سروے میں پایا کہ کئی ہزار ایکڑ اوقاف کی ایسی زمینات ہیں جن کا اندارج سٹی سروے ،لینڈ ریکارڈڈ،پی آرکار اور محصول کے دیگر شعبہ جات میں نہیں جس کے یہ ثابت ہوسکے کہ یہ ملکیت وقف بورڈ کی ہے ۔ اس موقع پر آل انڈیامسلم مجلس مشاورت کے جنرل سیکریٹری مجتبی فاروق نے بھی اخبار نویسیوں سے خطاب کرتے ہوئے بتلایا کہ سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں جو بات کہی اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اگرحکومت ایمانداری سے اوقاف کی جائیدادوں کو مسلمانوں کے حوالے کردے تو مسلمانوں کو کسی قسم کی ریزرویشن ،یونیورسٹی اور نہ ہی طلباء کے لیے اسکالر شپ کی ضرورت نہیں رہی گی ۔وقف کی جائیدا داور آمدنی کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ6 199میں حکومت کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق وقف کی چھ لاکھ ہیکڑ زمین کی آمدنی ایک لاکھ بارہ ہزار کروڑ تھی اگر اس کا دس فیصد یعنی صرف 12000 ہزار کروڑ روپیہ بھی مسلمانوں کے فلاح و بہود پر خرچ کیا جاتا تو حکومت کو مسلمانوں کے لیے کسی بھی بجٹ ان کے لیے رقم مختص کرنے کی ضرور ت محسوس نہیں ہوگی کیونکہ مرکزی حکومت نے اقلیتوں کے فلاح کے لیے مرکزی بجٹ میں صرف3700کروڑ روپیہ منظور کیا تھا جوکہ اوقاف کی جائیدادوں سے حاصل ہونے والی متوقع آمدنی کے مقابلہ میں بالکل ایسے ہے جیسے اونٹ کے منھ میں زیرہ کے مترادف ہے ۔جبکہ مہاراشٹرحکومت کا اقلیتی بجٹ صرف 240کروڑ تھا ۔
عالم دین مولانا معین میاں نے ریاست میں اوقاف کی جائدادوں کی لوٹ کھوسٹ کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ مہاراشٹر میں 92ہزار ایکٹر زمین وقف بورڈ کی ریکارڈمیں موجود ہے مگر اس میں سے اکثر زمینات کا اندارج محصول شعبہ میں نہیں ہے ، جیسا کہ لینڈ ریکارڈ آفس،سٹی سروے ، پی آر کارڈ ،7/12میں وقف بورڈ کا نام درج نہیں بلکہ یہ املا ک کسی اور کے نام سے درج ہے ا نہوں نے گنجان مسلم آبادی والے علاقے دو ٹاکی میں واقع چھوٹاسوناپور قبرستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس پر 345دکانیں غیر قانونی طریقے سے تعمیر گئی ہیں جبکہ دیگر قطعہ اراضی ابھی خالی ہے جس کو وقف بورڈکے ممبر کی ملی بھگت سے ایک بلڈر کو فروخت کرنے کا پروگرام بنالیا گیا تھا اس کے لیے انہوں نے بہت بھاگ دوڑ کرکے اس زمین کو عید گاہ کے نام سے رجسٹرڈ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور اس سلسلہ میں ریاستی وزیر اعلی دیویندر فرنویس نے ان کی مدد کی تھی جس کی بدولت اوقاف کی اس جائیداد کا تحفظ ہوسکا ۔ دوران کانفرنس یہ بھی اعلان کیا گیا کہ غیر قانونی طریقے سے جن لوگوں نے اوقاف کی جائیددوں کو اپنے نام سے کیاہے ان کے ناموں کو خارج کرکے وقف بورڈ کا اندراج کرنے کی کوشش کی جائے گی اس کے لیے اس کا اصل ریکارڈ نکال کر وقف متعلقہ آفسوں میں ان کا اندراج کرانا ضروری ہے ۔ اسی کے ساتھ ساتھ حکومت اورلیز ہولڈر سے مارکیٹ ریٹ کے حساب کرایہ وصول کرکے وقف بورڈ کی آمدنی میں اضافہ کرایاجائے گا۔
اس موقع پر تحریک اوقاف کے عہدیداران اور اراکین کے ناموں کا اعلان کیا گیا جس میں صدر شبیر احمدانصاری ،جنرل سیکریٹری مرزاعبدالقیوم ندوی (اورنگ آباد) ،سہیل کھنڈوانی ،ایڈوکیٹ ایم ٹی کیوسید ،شاہد الناصری ،سعید خان، عامر ادریسی ،ناصر خان محبوب خان ،سجادحسین ( اکولہ)مبین قریشی،کمال الدین کونڈیکر اوراسحاق کھڑکے اراکین کے نام شامل ہیں۔ پریس کانفریس میں محبوب خان پٹھان، احمد محی الدین (اورنگ آباد ) ایم ٹی کیو سید (ناسک) سجاد حسین (اکولہ)کمال الدین کونڈیکر ( رتنا گیری) مبین قریشی ،وغیرہ افراد موجود تھے