میرٹھ: استغاثہ (ریاستی حکومت) نے 31 مارچ 2023 کو میرٹھ میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج لکھوندر سود کی عدالت کے حکم کو چیلنج کیا ہے ، جس میں مئی 1987 کے ملیانہ قتل عام کیس میں 39 ملزمان کو بری کیا گیا تھا جہاں مبینہ طورپر اکثریتی فرقہ کے لوگوں کے ساتھ ملی بھگت سے سیکورٹی فورسز نے 72 مسلمانوں کو قتل کیا تھا۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کاؤنسل (اے ڈی جی) ایڈوکیٹ، سچن موہن کے مطابق، ‘‘ ضلع مجسٹریٹ نے 31 مارچ 2023 کے اے ڈی جے عدالت کے حکم سے اتفاق نہیں کیا اور ایڈوکیٹ جنرل کو ایک رپورٹ بھیجی، جس میں نچلی عدالت کے فیصلے پر نظرثانی کی ضرورت کی سفارش کی گئی۔ اس کے پیش نظر ریاستی حکومت نے نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس معاملے میں اگلی سماعت اکتوبر ماہ میں ہائی کورٹ میں ہوگی۔
ریاستی حکومت کے اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے سینئر صحافی قربان علی جو سابق ڈی جی پی وبھوتی نارائن رائے ،آئی پی ایس کے ساتھ الٰہ آباد ہائی کورٹ میں اس کیس کی پیروی کررہے ہیں، نے کہا، ‘‘ملزم کے خلاف مقدمہ چلانا ریاست کا فرض ہے ۔ مجھے امید ہے کہ ریاست اس بار اپنا فرض پوری تندہی سے ادا کرے گی۔’’
انہوں نے مزید کہا کہ یہ امر دلچسپ ہے کہ مدعی سمیت دس گواہوں نے عدالت میں گواہی دی لیکن استغاثہ ملزمان کے خلاف مقدمہ ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کاؤنسل سچن موہن کے مطابق، ‘‘ بریت کی کئی وجوہات بتائی گئی تھیں۔ پہلا، پولیس نے ملزم کی شناخت پریڈ نہیں کروائی تھی۔ دوسری بات، پولیس نے مبینہ طور پر ووٹر لسٹ سے 93 بے ترتیب نام ڈالے تھے ، جن میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنکی قتل عام سے برسوں پہلے موت ہوچکی تھی ۔یا پھر جائے وقوعہ سے کوئی ہتھیار برآمد نہیں ہوا تھا۔’’
دریں اثنا، نچلی عدالت کے 31 مارچ کے فیصلے کے خلاف ایک فوجداری اپیل (سی آر پی سی ایکٹ کی دفعہ 372 کے تحت) 27 جون کو دائر کی گئی تھی ، اور اس پر 11 جولائی کو سماعت ہوئی ۔ جسٹس سوریہ پرکاش کیسروانی اور نند پربھا شکلا پر مشتمل ہائی کورٹ کی بنچ نے اس معاملے میں ریاست اتر پردیش اور 39 ملزمان سمیت مدعا علیہان کو نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا۔
جن تین افراد نے اپیل دائر کی ہے ان میں محمد یعقوب، وکیل احمد اور اسماعیل خان شامل ہیں۔ یعقوب، جو اس کیس کا اصل شکایت کنندہ تھا اسے بے رحمی سے مارا پیٹا گیا تھا اور ٹانگیں اور پسلیاں توڑ دی گئی تھیں۔ وکیل احمد کو گولی لگنے سے زخم آئے اور ایک گردہ ضائع ہو گیا۔ جبکہ اسماعیل خان نے اپنے خاندان کے 11 افراد کو قتل عام میں کھو دیا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملہ کے شکار 214 گھروں میں سے 106 کو مسمار کیا گیا اور 72 افراد ہلاک ہوئے ۔
مرکزی گواہ 63سالہ یعقوب نے کہا، ‘‘ میں سیشن عدالت کے 31 مارچ کے فیصلے کے بارے میں جان کر حیران رہ گیا، اس لیے ہم نے ہائی کورٹ میں فیصلے کے خلاف اپیل کی۔ ہمیں بغیر کسی اشتعال کے مارا پیٹا گیا جبکہ قتل عام جاری تھا۔ پی اے سی کے اہلکاروں نے گھروں پر حملہ کرنا شروع کر دیا جب کہ ہجوم نے لوٹ مار اور ہنگامہ آرائی کی۔ یہ ایک قتل عام تھا۔’’
ایک اور درخواست گزار 61 وکیل احمد نے کہا، ‘‘ اس وقت میری عمر 25 سال تھی، اور مجھے گولی ماری گئی، جس کے بعد میرا ایک گردہ ضائع ہوگیا۔ ایک اور گولی میرے ہاتھ میں لگی۔ انہوں نے میری دکان لوٹ لی اور کئی رشتہ داروں کو قتل کیا۔ مجھے یاد نہیں کہ میں ان تمام برسوں میں کتنی بار سماعت کے لیے عدالت گیا ہوں۔ نچلی عدالت کے فیصلے نے ہمیں چونکا دیا۔ ہم شکر گزار ہیں کہ ہائی کورٹ نے ہماری اپیل قبول کر لی ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ اس بار انصاف ملے گا۔’’
اسی معاملے میں ایک اور متاثرہ رئیس احمد، جس کے والد کی موت ہو گئی تھی اور جو خود گولیوں سے شدید زخمی ہو گئے تھے ، نے بھی نچلی عدالت کے 40 ملزمان کو بری کرنے کے ملیانہ کے واقعہ سے متعلق فیصلے کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ میں فوجداری اپیل دائر کی تھی۔
متاثرین کی نمائندگی کرنے والے وکیل ایڈووکیٹ علاؤالدین صدیقی نے نچلی عدالت کے فیصلے کے بارے میں کہا، ‘‘یہ ایک ایسے وقت اچانک فیصلہ تھا جب ابھی کارروائی جاری تھی۔’’