سپریم کورٹ نے منی پور میں سال 2023 میں ہوئی تشدد کے حوالے سے آج سماعت کی۔ عدالت نے منی پور حکومت سے تشدد کے دوران مکمل طور پر یا جزوی طور پر جلی ہوئی، لوٹی ہوئی اور قبضہ کی گئی جائیدادوں/ عمارتوں کے بارے میں ایک مہر بند کور رپورٹ طلب کی ہے۔
عدالت نے رپورٹ میں مالک کے نام اور ان کے پتے کی جانکاری بھی مانگی ہے۔ ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی جانکاری مانگی ہے کہ ان جائیدادوں پر ابھی کون قابض ہے۔ متعلقہ معاملات کی سماعت چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ اور سنجے کمار کی بنچ نے کیا۔
عدالت نے ریاستی حکومت سے اس بارے میں بھی جواب طلب کیا ہے کہ جن جائیدادوں پر غیر قانونی طور پر قبضہ کیا گیا ہے حکومت نے اس کے خلاف اب تک کوئی کارروائی کی ہے یا نہیں۔ ساتھ ہی عدالت نے حکومت سے اس بارے میں بھی جواب طلب کیا ہے کہ جن کی جائیدادوں پر قبضہ کیا گیا ہے انہیں قبضے کے عوض کوئی رقم یا ’میسنے منافع‘ (کسی کی زمین پر قبضہ کرنے کے لیے مالک کو ادا کیئے گئے رقم) کی ادائیگی کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔
منی پور کے معاملے میں اگلی سماعت اب 20 جنوری کو ہوگی۔ چیف جسٹس کھنہ نے ریاست منی پور کی طرف سے پیش ہونے والے سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے کہا کہ ہمیں تمام جلی ہوئی، لوٹی گئی اور قبضہ کی گئی جائیدادوں کے بارے میں معلومات چاہیے۔
آپ ہمیں یہ معلومات مہر بند کور میں دے سکتے ہیں۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ ریاست کی پہلی ترجیح تشدد کو روکنا ہے اور پھر لوگوں سے اسلحہ اور گولہ بارود واپس لینا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو رپورٹ سونپ دیں گے۔
ریاست میں بازآبادکاری کی نگرانی کے لیے سپریم کورٹ کے ذریعہ مقرر کردہ جسٹس گیتا متل پینل کی جانب سے سینئر وکیل ویبھا مکھیجا نے عدالت کے سامنے یہ بات رکھی کہ رکاوٹیں ریکوری کو متاثر کر رہی ہیں۔
اس پر سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ ریاست میں ایسے حالات ہیں جن سے جارحیت کے بغیر نمٹا جانا چاہیے۔ وکیل نے عدالت کے سامنے تشدد کے باعث بے گھر ہونے والے افراد کے حوالے سے ایک درخواست پیش کی۔
تشار مہتا نے اس پر کہا کہ اس طرح کی شکایات جسٹس متل کمیٹی کے سامنے رکھی جا سکتی ہیں۔ بحث کے دوران ایک وکیل نے کہا کہ ریاست میں تشدد ابھی رکا نہیں ہے اور حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔
وکلاء میں سے ایک نے یہ بھی کہا کہ عدالت کو ریاست سے برآمد کیے گئے ہتھیاروں کی کل تعداد کی جانکاری مانگنی چاہیے۔ اس کے جواب میں تشار مہتا نے کہا کہ ریاست جانکاری فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ ساتھ ہی تشار مہتا نے عدالت سے اس حقیقت کو آرڈر میں درج نہ کرنے کے لیے بھی کہا۔