میرٹھ: منور رانا کو اردو شاعری کے ساتھ ساتھ اردو نثر پر بھی مہارت حاصل تھی۔ ان کے کئی شعری مجمو عے اور نثر پر مشتمل کتابیں ان کی یاد دلاتی رہیں گی۔
انہوں نے جس طرح اردو شاعری میںماں بہن،بیٹی وغیرہ کے رشتوں کے احساس کو اپنی شاعری میں شامل کیا ۔ یہ ان کا ہی انفراد تھا۔ حالانکہ بہت سے شعراء نے اپنی شاعری میں ماں، بہن، بیٹیوں کے رشتوں کو شامل کیا ہے مگر منور رانا کا سالب و لہجہ ،سلیس و سادہ انداز بیان کسی کو حاصل نہ ہو سکا۔ آپ نے جس طرح سے ماں کو اپنی شاعری میں پیش کیا اس طرح سے دیگر شعرا پیش کرنے سے قاصر رہے۔
یہ الفاظ تھے معروف فکشن نگار و ناقد اور صدر شعبۂ اردو، چودھری چرن سنگھ یو نیورسٹی،میرٹھ کے پروفیسر اسلم جمشید پوری کے جوشعبے میں منعقد معروف شاعر منور رانا کے انتقال پر تعزیتی نشست میں اپنی صدا رتی تقریر میں ادا کررہے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ منور رانا شعبۂ اردو کے بہت سے کاموں کو نہایت خلوص سے سراہتے تھے۔
اس سے قبل پروگرام کا آغاز سعید احمد سہارنپوری نے تلا وت کلام پاک سے کیا۔ ہدیۂ نعت ریسرچ اسکالرعلما نصیب نے پیش کیا۔ صدارت کے فرائض صدر شعبۂ اردو، پروفیسر اسلم جمشید پوری نے انجام دیے۔ پروگرام کی نظامت اور شکریے کی رسم شعبے کی استاد ڈاکٹر شاداب علیم نے کی۔
اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہو ئے ڈاکٹر آصف علی نے کہا کہ دنیا میں جو آ یا ہے اس کا جانا یقینی ہے۔ مگر بہت سی شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنے عمل، اپنے کلام یا پھر اپنی کتابوں کی وجہ سے اپنی یادیں چھوڑ جاتے ہیں۔ منور را نا نے منفرد کلام اور رشتوں کے احساس کو شاعری میں شامل کر کے آنے والی نسلوں کو یہ ترغیب دے گئے کہ زندگی کیسے گزاری جا تی ہے۔
ان کی شاعری میں اس دور کا لوچ بھی ہے اور لچک بھی لیکن یہ فولاد کی لوچ اور لچک ہے۔ ان کی غزلوںمیں ایک ٹھہرے ہو ئے پرسکون تالاب اور اس کی ہلکی ہلکی لرزشوں کے بجائے ایک تیز پہاڑی ندی کا زور اور ابھار ہے۔ جذبات کی جامعیت اور سادگی اور بیان کا اختصار منور رانا کی غزلوں کا خاصہ ہے۔وہ اپنی تمام غزلیہ شاعری میں ایک فن کارانہ انتخابی نظر اور چابک دستی کا ثبوت دیتے نظر آ تے ہیں۔
ڈاکٹر شاداب علیم نے کہا کہ منور رانا نے نئی نسل کے لیے اچھے پیغامات چھوڑے ہیں۔ ان کی شاعری میں زندگی گزارنے کا طریقہ، رشتوں کو نبھا نے کا سلیقہ اور ماں با پ کے ادب و احترام کے آداب شامل ہیں۔ ایسی منفرد شخصیات سے ادبی محفلیں آباد ہوتی تھیں مگر افسوس ان کی کمی برسوں تک محسوس کی جائے گی۔
حالانکہ منور رانا نے اپنے کلام کے ذریعے اپنی اہمیت کو منوا لیا تھا۔ ان کے کلام میں رشتوں کے احساس،ماں ،بہن،بیٹیوں کی اہمیت اور وطن سے محبت کی علامت نظرآ تی ہے۔
ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے کہا کہ منور را نا عالمی سطح پر مقبو لیت حاصل کر چکے تھے۔ پاکستان، جرمن،بنگلہ دیش ، امریکا، ترکی، وغیرہ ممالک میں ان کی شاعری کو پسند کیا گیا۔ رشتوں کے احساس والی شاعری منور را نا کو ہمیشہ زندہ رکھے گی۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے عام اور خاص میں مقبولیت پائی۔ ان کی زبان سے نکلنے والے ا شعار خاص کیفیت کے حامل ہوتے تھے۔
انہوں نے دور حاضر میں انسانی قدروں کی شکست‘ مایوسی ‘ نا کامی ‘ تنہائی ‘ کے تعلق سے سماج کی بھر پور عکاسی کی ہے ۔ساتھ ہی ان کی شاعری میں صاف و سلیس زبان اور عمدہ اسلوب بھی نظر آتا ہے۔اس موقع پرآفس انچارج محمد شمشاد، طا ہرہ خاتون اور طلبہ و طالبات موجود رہے۔