بصیرت جرنلزم اینڈلینگویج اکیڈمی کی افتتاحی تقریب سے علماء ،صحافی ودانشوران کاخطاب
ممبئی( یواین آئی)آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ہے صدر اور مشہور عالم دین مولانا خالد سیف اللّٰہ رحمانی نے کہاہے کہ مین اسٹریم میڈیا کے لیے افرادسازی وقت کی اہم ضرورت ہے اور کہاکہ انسان اپنی زندگی میں داعیانہ مزاج پیدا کرے ، اللہ تعالی نے دعوت کا کوئی مخصوص منہج طے نہیں کیاہے ، مختلف زمانوں میں مختلف حالات میں اس کا طریقہ کار الگ الگ ہوسکتا ہے ، اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام میدانوں کے لیے افراد تیار کئے جائیں۔
مولانا سیف اللّٰہ نے ممبئی میں بصیرت میڈیاہاؤس کے زیراہتمام بصیرت جرنلزم اینڈلینگوینج اکیڈمی کی افتتاحی تقریب کی صدارت کر تے ہوئے کہاکہ سماج میں جہاں اچھے ڈاکٹرس ہوں، وہیں اچھے وکیل اور سی اے بھی موجود ہوں، جو ملی اداروں کی رہنمائی کریں، یہ دعوت کے کام میں معاونت اور خدمت خلق بھی ہے ، ایسے مسلم وکلاء ہوں، جو شریعت کے مسائل کو اگر کورٹ میں چیلنج کیا جائے تو اس کا دفاع کرسکیں۔
انہوں نے مزید کہاکہ اس وقت کا سب سے اہم تقاضہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ علماء ماس کمیو نیکیشن کی تربیت حاصل کریں۔ اگر ہم میڈیا ہاؤس قائم نہیں کرسکتے تو اپنے افراد کو تربیت دے کر مین اسٹریم میڈیا میں بھیجیں جب یہ افرادوہاں جائیں گے تو آپ کی سوچ اور فکر لے کر جائیں گے ، نیز پروفیشنل انداز سے لوگوں کی نفسیات کا خیال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ شوسل۔میڈیا۔کا استعمال کیا جائے اوران اداروں کا زیادہ سے زیادہ مالی تعاون بھی کیا جائے کیوں کہ یہ بھی اشاعت اسلام اور قرآن کے پیغام کو عام کرنے والے ادارے ہیں۔
مولانارحمانی نے بصیرت اکیڈمی کے قیام پراکیڈمی کے ڈائریکٹرمولاناغفران ساجدقاسمی کومبارکبادپیش کی اوران کی کامیابی کے لئے اپنی نیک خواہشات کااظہارکیا۔ بصیرت اکیڈمی کے سرپرست مولاناحافظ محمد اقبال چونا والا نے افتتاحی کلمات میں مولانا غفران ساجد قاسمی کو ان کے جہد مسلسل اور پوری ثابت قدمی کے ساتھ اس مشکل راہ پر جمے رہنے اور صحافیوں کی تربیت کے لیے اس مثالی ادارہ کے قیام پر مبارک باد پیش کی اور ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔
بصیرت آن لائن کے چیف ایڈیٹراوربصیرت اکیڈمی کے ڈائریکٹر مولانا غفران ساجد قاسمی نے تعارفی کلمات میں تمام مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے بصیرت میڈیا ہاؤس کی کارکردگی پرمختصر روشنی ڈالی،انہوں نے کہا کہ بصیرت نام مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ہی تجویز کیا تھا اور سب سے پہلے یہ سہ ماہی مجلہ کی شکل میں جاری ہوا،2003ئسے 2010ء تک یہ جاری رہا اس کے بعد 2012ء میں اس کو آن لائن شروع کیا گیا،2019ء میں ہفت روزہ ملی بصیرت نامی اخبارجاری کیا گیا اور آج2023ء میں بصیرت جرنلزم اینڈلینگویج اکیڈمی کا قیام عمل میں آرہا ہے ، یہ ہمارے لئے بڑی نیک بختی اور سعادت مندی کی بات ہے کہ یہ تمام امور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی سرپرستی میں انجام پارہے ہیں۔مولاناغفران قاسمی نے مزیدکہاکہ صحافت مکمل طورپر ایک فن ہے ، یہ مضمون نگاری اورانشاء پردازی سے الگ شئے ہے ،
اس میں وقت حالات اور موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے مکمل دیانت داری کے ساتھ قلم اٹھا نا ایک صحافی کی ذمہ داری ہوتی ہے ، کب کس موقع پر کیا لکھا جائے ،کس طرح لکھا جائے اس کو جاننا اور سیکھنا بہت ضروری ہے ، ہم نے محسوس کیا کہ ملک میں جس طرح دیگرفن میں تخصصات کے ادارے قائم ہیں اسی طرح علماء کو اس میدان میں لانے کے لیے اور ان کی تربیت کے لیے کوئی مخصوص ادارہ نہیں ہے ،
اس ادارہ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہم ایسے صحافی تیار کریں جو صحافت کے ساتھ ساتھ اپنے اندر دعوت کی فکر بھی رکھتے ہوں۔اکیڈمی کے صدر مولانا رشید ندوی نے تمام علماء، ماہرین فن اور دانشوران سے گذارش کی کہ اکیڈمی کو اپنے مفید مشوروں سے ضرور نوازیں معروف صحافی اوراکیڈمی کے تعلیمی امورکے نگراں ڈاکٹر سلیم خان نے اپنے تاثرات میں اس بات کا اظہار کیا کہ میڈیا کو اردو میں ابلاغ کہتے ہیں جس میں تبلیغ بھی شامل ہے ،دعوت کا کام صحافت کے ذریعہ بھی کیا جاتا ہے ، صحافت اور دعوت دونوں ایک ہی شئے ہے ،دونوں کے درمیان تفریق غیر فطری ہے ۔
مشہور ملّی و سماجی کارکن مولاناحکیم محمود احمدخاں دریابادی رکن عاملہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا جمہوریت کا چوتھا اہم ستون ہے ہمیں مین اسٹریم میڈیا میں بھی پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے اور سوشل میڈیا اکاؤنٹ بھی بنانا چاہیے ، بڑی کوششوں کے ساتھ ہم چھوٹی چھوٹی کوششیں بھی کریں، جیسے ہفت روزہ ملی بصیرت کو ملٹی لینگویج اور ملٹی سٹیز بنایا جائے ، بصیرت اکیڈمی کا قیام ایک مستحسن اقدام ہے ۔
دارالعلوم امدادیہ کے صدرمفتی اوراستاذحدیث مفتی سعید الرحمن فاروقی نے کہا کہ صحافت کی لائن اس وقت جھوٹ سے مشہور ہے ، اللہ کرے کہ بصیرت اکیڈمی اس دنیا کو بصیرت فراہم کرنے والی صحافت سکھائے اور سچ کا ڈنکا بجائے ۔