– محمد رضا
ڈاکٹر کلب صادق ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔اس لیے متعدد القاب سے ان کو نوازا گیا۔فخرملت، علمداراتحاد، پاسدار علم و ادب، غریب پرور، مفکراسلام، محقق، علمی میدان کا مجاہد، گنگا جمنی تہذیب کا پاسبان، حکیم امت وغیرہ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر ڈاکٹر کلب صادق صدر الافاضل ۲۲ جون ؍۱۹۳۹ء کو لکھنو شہر کے علمی و ادبی خاندان میں آنکھ کھولی ۔ان کے داداقدوۃ العلماء مولانا سید آقا حسین جو اپنے عہد کے مجتہد اور باعمل عالم دین تھے۔ان کے والدآقائے شریعت مولانا سید کلب حسین مشہور و معروف عالم دین تھے۔
ڈاکٹر کلب صادق مرحوم کو وراثت میں علم و ادب موصول ہوا۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے عربی زبان میں پی .ایچ. ڈی. کی ڈگری حاصل کی۔ مرحوم نے دنیا سے بتاریخ ۲۴؍ نومبر ۲۰۲۰ کوکوچ کر کے دار بقا کو حقیقی مسکن قرار دیا۔ ظاہر ہے دنیا کی ہر شے کو فنایقینی ہے۔ جس میں انسان بھی شامل ہے۔لیکن خالق کائنات نے انسان کو مختار بنا یا ہے۔
وہ چاہے دنیا کے مال و دولت کی چاہت میں فنا ہوجائے یا دنیا کوصحیح طور پر استعمال کرکے آخرت کی چاہت میں ابدی زندگی حاصل کرے۔ابدی زندگی کو حاصل کرنے کے لیے اختیار اور عمل کے درمیان توازن کے ذریعے ہی انسان ابدی زندگی میں حیات طیبہ کا مستحق قرار پاتا ہے۔وہ صفات ڈاکٹر کلب صادق مرحوم کے اندر پائے جاتے ہیں۔سب سے پہلی اور اہم صفت خدا اور رسولؐ و اہلبیتؑ پر ایمان ہے۔ اگر ان پر ایمان مستحکم ہے تو سب کچھ ہے لیکن اگر کسی انسان کے اندر اللہ، رسولؐ اور اہلبیتؑ پر ایمان نہیں ہے تو دنیا میں شہرت، مال و دولت، حکومت اور دیگر دنیا کی آرائش کے سامان کی کوئی حیثیت و وقعت نہیں ہے کیونکہ یہ ساری چیزیں دائمی نہیں ہیں مگر اللہ، رسول اور اہلبیتؑ پر ایمان و توکل دائمی اور ابدی حیات کی ضمانت ہے۔
ڈاکٹر کلب صادق مرحوم تمام صفات کے حامل تھے۔وہ مومن، متقی، عالم دین، عاشقِ علیؑ اور محب اہلبیتؑ تھے۔ان کی ذات سے بے شمار صفات ایسے متصف ہیں جیسے ایک درخت سے شاخیں جڑیں ہوں۔
بالخصوص انسانی ترقی کے لئے علم و اتحاد بنیادی ضرورت ہیں۔ وہ خود اعلی تعلیم یافتہ تھے اورتمام عمر تعلیم کو فروغ دینا اور معاشرے سے جہالت و غربت کو ختم کرنا ان کی اہم کاوش ہے ۔ان مقاصد میں وہ کامیاب ہوئے، سوئے ہوئے ذہنوں کو بیدار کیا۔سنی شیعہ اتحاد اور ہندوستانی قوم کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے کی دعوت دیتے رہے۔ چنانچہ ایک تقریر میں وہ کہتے ہیں۔
”آپ سے کہاجاتا ہے سنی شیعوں کے دشمن ہیں۔شیعہ سنیوں کے دشمن ہیں۔ہندو مسلمانوں کے دشمن ہیں ۔لیپی جے سنگھ جی کی آپ کی سیوا میں میں عرض کر رہا ہوں۔کوئی دشمن نہیں کسی کا اس ملک کے صرف تین دشمن ہیںپہلاہے غریبی دوسرا ہے جہالت تیسراہے کرپشن جس دن ان تین دشمنوں کو ختم کردیا ہندوں اور مسلمانوں نے ملکر اسی دن یہ دیش دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ دیش بن جائے گا”
مندرجہ بالاقول مولانا ڈاکٹرکلب صادق صاحب کی ایک ویڈیو سے اخذ کر کے پیش کیا گیا ہے ۔جس میں انھوں نے غریبی، جہالت اور کرپشن سے متعلق گفتگو کی ہے۔اس کے علاوہ مولانا مرحوم کی دوسری تقریریں ہیں جن میں اتحاد، بھائی چارگی،تعلیم کو فروغ، جہالت کا خاتمہ ،وطن پرستی ، گنگا جمنی تہذیب اور دیگر ہندوستان کی بقا کے لیے مسائل بیان موجود ہیں۔
دین اسلام نے مومن کی پوری زندگی کو جہاد سے تعبیر کیا ہے۔ اس سے متعلق اللہ قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے: ”صاحبان ایمان صرف وہ لوگ ہیں جو خدا و رسول پر ایمان لائے اور پھر شک نہیں کیا اور اپنے جان و مال سے راہ خدا میں جہاد کیا در حقیقت یہی لوگ اپنے دعوائے ایمان میں سچے ہیں۔”)سورۂ حجرات آیت؍۱۵)
اس آیت سے دو باتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں وہ یہں ہیں کہ زندگی دو چیزوں کے مجموعے کا نام ایک کا نام عقیدہ اور دوسرے کا نام جہاد ہے۔ اگر انسان کی زندگی مین عقیدہ نہیں تو وہ زندگی نہیں اور اگر جہاد نہیں تو وہ زندگی، زندگی نہیں بلکہ موت چاہے کھاتا پیتا، چلتا پھرتا، سوتا جاگتا کیوں نہ نظر آرہا ہو۔اصل حیات اسی وقت ہوگی جب اس کی زندگی میں جہاد ہو۔
اہل دنیا سمجھتے ہیں کہ جہاد صرف میدان جنگ میں تلوار، بندوق، راکٹ کے ذریعے ہونے والے کا نام ہے ۔مگر دین اسلام نے بتایا جہاد صرف میدان جنگ میں تلوار ، بندقیں اور میزائیلوں سے لڑنے کا نام نہیں ہے بلکہ جہاد کے معنی بہت وسیع ہیں۔ اللہ نے مسلمانوں کی پوری زندگی کو جہاد قرار دیا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق مسلمان اپنے مال اورنفس کے ذریعے جہاد کرے۔ مگر دنیا کی راہ میں نہیں بلکہ اللہ کی خوشنودی کے لیے ۔ تب وہ جہاد کہلانے کا مستحق ہے۔لہٰذا اللہ نے مسلمانوں کی زبان ، علم، قلم، دوسروں کی مدد اور دیگر صفات کو جہاد کہا ہے۔
ڈاکٹر کلب صادق مرحوم نے اس آیت کی روشنی میں اپنی پوری زندگی کو جہاد بنادیا مرحوم نے زبان، علم اور قلم کے ذریعے جہاد کیا ۔یہ تقریریں معانی و مفاہیم کی گہرائی زبانی جہاد ہیں جن کو اہل علم و ہنر سراہتے ہیں۔ان کی تقریریں صرف ایک خاص قوم کے لئے نہیں ہوتیں بلکہ ہندوستانی اقوام نیز دانشور، پروفیسر اور ہر طبقے کے طلبہ ان کی تقریروں سے علمی پیاس بجھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔وہ اردو زبان کے علاوہ متعدد زبانوں پر دسترس رکھتے تھے۔جہاں کہیں بھی تقریراور مجلس حسینؑ خطاب کرنے کو تشریف لے جاتے ،لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے۔آپ کے اندازِ گفتگو میں ملائمیت ، محبت اور شگفتی کے نغمے پھوٹتے تھے۔
دوسرا جہاد قلم کے ذریعے ہے ۔قلم کے ذریعے جہاد وہی کرسکتا ہے جس کے پاس علم موجود ہو ہر کوئی نہیں کرسکتا ہے۔یہ قلم میدان جنگ میں کام نہیں آتا مگر اس کی بہت عظمت ہے۔قلم کی عظمت کے بارے میں ایک عرب شاعر کہتا ہے۔
یلوح الخط فی القرطاس دھرا
وکاتبہ رمیم فی التراب
یہ قلم کی برکت ہے جب لکھنے والا قبر میں سو جاتا ہے اور مٹی کا ڈھیر بن جاتا ہے تو اس کی تحریر کاغذ پر چمکتی رہتی ہے۔اگر قلم نہیں ہوتا تو لکھنے والا جب دار فانی سے چلا جاتا ہے تو وہ مٹی میں مل کر ختم ہوجاتا اور اس کے آثار اور افکارو خیالات مٹ جاتے مگر قلم مرنے والے کے آثار کو فنا نہیں ہونے دیتا بلکہ اسے لوگوں کے دلوں میں باقی رکھتاہے۔علامہ ذیشان حیدر جوادی قلم کی عظمت کے بارے میں لکھتے ہیں۔
”قلم کی برکت یہ ہے کہ لکھنے والا چاہے مردہ ہوجائے مگر ابھی مردہ نہیںہے ابھی زندہ ہے اس لئے کہ اس کی تحریر چمک رہی ہے، اس کا خط روشن ہے، اس کا پیغام باقی ہے۔ ”
اس قول کی روشنی میں ڈاکٹر کلب صادق مرحوم فنا نہیں ہوے بلکہ زندہ ہیں کیونکہ ان کی معنی دار تقریریں اور تحریریں صفحہ قرطاس پر سورج کی طرح چمک رہی ہیں۔قلم کی عظمت کے بارے میں حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔”یوزن مداد العلماء مع دماء الشہدا” اللہ کی عدالت کی میزان میں ایک طرف علماء کی روشنائی رکھی جائے گی اور ایک طرف شہیدوں کاخون رکھا جائے گا یہ خدا کا فضل ہے کہ راہ خدامیں بہتے ہوئے خون کے مقابلے میں علماء کے قلم سے نکلی ہوئی روشنائی کو ترجیح دی جائے گی اسے وزنی اور سنگین سمجھا جائے گا ۔ یہ قلم کی عظمت کہ اس کے احسانات سے انسان شہیدوں کے خون سے زیادہ افضل ہوجائے۔
پیغمبر اسلام ؐکے نورانی بیان کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر کلب صادق مرحوم کی علمی خدمات اور ان کی تحریریں بہت زیادہ فضیلت کی حامل ہیں ۔ ان کی اہم کتابوں میں” تاج شکن” ”نیو یارک سے قم تک”” مجالس کے مجموعے””قرآن اور سائنس” ”اسلام دین حق”” خطبات نمازجمعہ””اسلام میں علم کی اہمیت ”” حقیقت دین (سائنس اور غلبہ اسلام )”وغیرہ قابل ذکر کتاب ہیں۔جن سے علم و فکر کے چشمے پھوٹتے ہیں۔
ڈاکٹر کلب صادق مرحوم نے اپنی علمی تحقیقی اور فکری کتابوں سے قوم کو دینی معلومات کا اہم سرمایہ دیا ہے۔اور مذہب تشیع کی پاسداری کی ہے۔کیوں نہ ہوان کا تعلق خاندان اجتہاد سے ہے۔ خاندان اجتہاد نے ہندوستان کی سرزمین پرہندوستانی اقوام کو فقہ جعفریہ سے روشناس کرایا ہے اور قابل قدر خدمات انجام دیں ہیں ابھی بھی خاندان ا جتہاد مذہب تشیع اورفقہ جعفریہ کی تبلیغ اور فروغ کےلیے سرگرم ہے۔ان میں سے ایک ڈاکٹر کلب صادق مرحوم تھے۔
مرحوم نے جس طرح اسلام کے قوانین اور احکام کوسمجھنے کے لئے مواد فراہم کیا ہے اسی طرح انھوں نے اردوز زبان و ادب میں بھی قابل قدر خدمات انجام دیں ۔ان کی تحریروں سے اردو زبان کو ترقی اور فروغ حاصل ہوا۔
ان کی کاوش اور محنت سے مندرجہ زیل خدمات ہیں۔
توحید المسلمین ٹرسٹ لکھنؤ،یونٹی کالج ،لکھنؤ ،یونٹی مشن اسکول، لکھنؤیونٹی انڈسٹریل ٹریننگ سینٹر لکھنؤ ، یونٹی پبلک اسکول الہ آباد،M.U.کالج علی گڑھ،یونٹی کمپیوٹر سینٹر لکھنؤ،یونٹی فری ایجوکیشن پروگرامس ان لکھنؤ،ایرازلکھنومیڈیکل کالج T.M.T.میڈیکل سینٹر شکار پوروغیرہ ہیں۔
ان تمام مراکز کے مولانا مرحوم بانی ہیں اور دل و جان سے ان مراکز کی ترقی اور کامیابی کے لیے جد وجہد کی ۔
وقت کی پابندی کا بہت خیال تھا ۔اسی لیے مرحوم نے وقت کی قدر کرتے ہوئے علمی، تحقیقی اور سماج کی خدمت انجام دی ۔ڈاکٹر کلب صادق صاحب کے دنیا سے رخصت ہونے پر بے حد افسوس ہے ۔