نئی دہلی : ایک جانب جب ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لئے پوجا پاٹ اور رسوم ادا کی جارہی ہیں۔ اسی دوران آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بیان جاری کرتے ہوئےکہا ہے کہ بابری مسجد ہمیشہ مسجد رہے گی۔ غاصبانہ قبضہ سے حقیقت ختم نہیں ہو جاتی۔ بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی کے ذریعہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ ظالمانہ اور غیر منصفانہ ہے۔
مولانا ولی رحمانی نے مسلمانوں سے مایوس نہ ہونے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ہاں کافی وقت تک بیت اللہ شریف بھی بتوں کی پوجا کا مرکز بنا رہا۔ مولانا ولی رحمانی نے ترکی کی مسجد آیا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ حالات کتنے ہی زیادہ خراب ہوں ہمیں مایوس نہیں ہونا ہے۔
اس سے قبل تفصیلی بیان جاری کرتے ہوئے مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے کہا گیا۔ بابری مسجد کے مقام پر ایک مندر کی بنیاد رکھی جارہی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اپنے دیرینہ موقف کو دہرانا ضروری سمجھتا ہے کہ “اسلامی شریعت کی روشنی میں جہاں ایک بار مسجد قائم ہوجاتی ہے وہ تا قیامت مسجد رہتی ہے۔“ لہٰذا بابری مسجد کل بھی مسجد تھی، آج بھی مسجد ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی مسجد رہے گی۔ مسجد میں مورتیاں رکھ دینے سے، پوجا پاٹ شروع کردینے سے یا ایک لمبے عرصہ تک نماز پر روک لگا دینے سے مسجد کی حیثیت ختم نہیں ہوجاتی۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکریٹری مولانا محمد ولی رحمانی نے اپنے ایک پریس بیان میں کہا ہے کہ ہمارا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہےکہ بابری مسجد کسی مندر یا کسی ھندو عبادت گاہ کو توڑکر نہیں بنائی گئی۔ الحمداللہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ (نومبر 2019) میں ہمارے اس موقف کی تصدیق کردی۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ بابری مسجد کے نیچے سے کھدائی میں جو آثار ملے، وہ 12ویں صدی کی کسی عمارت کے تھے۔ یعنی بابری مسجد کی تعمیر سے 400 سال قبل۔ لہٰذا کسی مندر کو توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی۔ سپریم کورٹ نے صاف طور پرکہا کہ بابری مسجد میں 22دسمبر 1949 کی رات تک نماز ہوتی رہی ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ بھی ماننا ہے کہ 22دسمبر 1949 میں مسجد میں مورتیوں کا رکھا جانا ایک غیر قانونی اور غیر دستوری عمل تھا۔ سپریم کورٹ اپنے فیصلہ میں یہ بھی مانتا ہے کہ 6دسمبر 1992 کو بابری مسجد کی شہادت ایک غیر قانونی، غیر دستوری اور مجرمانہ فعل تھا۔ افسوس کہ ان تمام واضح حقائق کو تسلیم کرنے کے بعد کورٹ نے ایک انتہائی غیر منصفانہ فیصلہ میں مسجد کی زمیں ان لوگوں کے حوالے کر دی جنہوں نے مجرمانہ طریقہ پر اس میں مورتیاں رکھیں اور اس کی شہادت کے مرتکب ہوئے۔
بورڈ کے جنرل سیکریٹری نے آگے کہا کہ چونکہ عدالت عظمیٰ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہے، لہذا اس کے حتمی فیصلہ کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ تاہم ہم یہ ضرور کہیں گے یہ ایک ظالمانہ اور غیر منصفانہ فیصلہ ہے، جو اکثریتی زعم میں دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے 9 نومبر کو فیصلہ ضرور دیا مگر انصاف کو شرمسارکیا ہے۔ الحمد اللہ ہندوستانی مسلمانوں کے نمائندہ اجتماعی پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ اور دیگر فریقوں نے بھی عدالتی لڑائی میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا۔ یہاں یہ بات بھی کہنا ضروری ہےکہ ہندتوا عناصرکی یہ پوری تحریک ظلم، جبر، دھونس، دھاندلی، کذب اور افترا پر مبنی تحریک تھی۔ یہ سراسر ایک سیاسی تحریک تھی، جس کا مذہب یا مذہبی تعلیمات دے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جھوٹ اورظلم پر مبنی عمارت کبھی بھی پائیدار نہیں ہوتی۔
جنرل سیکریٹری صاحب نے اپنے بیان میں آگے کہا کہ حالات چاہے جتنے خراب ہوں ہمیں حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے اور اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ مخالف حالات میں جینےکا مزاج بنانا چاہئے۔ حالات ہمیشہ یکسان نہیں رہتے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے، “وتلک الایام نداولھا بین الناس” ( یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں، جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں)۔ لہذا ہمیں نہ تو مایوس ہونا ہے اور نہ ہی حالات کے آگے سپر ڈالنا ہے۔ ہمارے سامنے استنبول کی آیا صوفیاء مسجد کی مثال اس آیت کی منہہ بولتی تصویر ہے۔ میں مسلمانان ہند سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلہ اور مسجد کی زمیں پر مندر کی تعمیر سے ہرگز بھی دل برداشتہ نہ ہوں۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے۔ توحید کا عالمی مرکز اور اللہ کا گھر خانہ کعبہ بھی ایک لمبے عرصہ تک شرک و بت پرستی کا مرکز بنا رہا۔ بالآخر فتح مکہ کے بعد پیارے نبی صل اللہ و علیہ و سلم کے ذریعہ وہ دوبارہ مرکز توحید بنا۔ انشاءاللہ ہمیں پوری توقع ہےکہ صرف بابری مسجد ہی نہیں یہ پورا چمن نغمہ توحید سے معمور ہوگا۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ایسے نازک موقعہ پر اپنی غلطیوں سے توبہ کریں، اخلاق و کردار کو سنواریں،گھر اور سماج کو دیندار بنائیں اور پورے حوصلہ کے ساتھ مخالف حالات میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کریں۔