برطانوی اخبار ڈیلی میل میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ اگر آپ فِشار خون میں کمی ، ذیابیطس کے مرض سے تحفظ اور رات کے وقت کھانوں کی خواہش پر کنٹرول چاہتے ہیں تو اس کے لیے رمضان سے ہٹ کر بقیہ دنوں میں 18 گھنٹے کا روزہ رکھا جا سکتا ہے ..
یا پھر آپ کھانا تناول کرنے کا تمام تر سلسلہ سہ پہر 3 بجے سے پہلے تک مکمل کر لیں۔ اخبار کے مطابق کھانے پینے کو سویرے چھوڑ دینے سے زائد وزن کا شکار مردوں کو وزن کم کرنے اور اپنی عمومی صحت بہتر بنانے میں مدد ملی۔
برمنگھم کی University of Alabama میں ہونے والے تحقیقی مطالعے میں غیر مسلسل روزے کو جانچا گیا جوearly time-restricted feeding (eTRF) کے نام سے معروف ہے۔
محققین کی ٹیم کا مقصد غذائی نظام کی اس مضبوطی کے سبب کا تعین تھا جو روزے پر انحصار کرتا ہے۔ خواہ یہ کم حراروں کے استعمال یا پھر کھانے پینے کو سویرے چھوڑ دینے کی صورت میں ہو۔ نتائج سے یہ بات سامنے آئی کہ کھانے پینے کو چھوڑ دینے کا وقت اس غذائی نظام کی جادوئی کنجی ہے۔
ایک تندرست انسان کے اندر cortisol (دباؤ کا ہارمون) کی سطح صبح آٹھ بجے اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ لہذا نظریاتی طور پر اس وقت ہمیں بھرپور توانائی حاصل ہوتی ہے تا کہ ہم بیدار ہو سکیں۔ اگلے روز صبح تین بجے یہ ہارمون اپنی کم ترین سطح پر ہوتا ہے اور پھر پانچ گھنٹوں کے بعد دوبارہ اپنے نقطہ عروج پر پہنچ جاتا ہے۔
مثالی طور پر چوٹی کی سطح کا یہ وقت صبح آٹھ بجے گھڑی کے الارم یا پھر دُھوپ کا سامنا کرنے کی وجہ سے حاص ہو جاتا ہے۔ ایسا ہو جانے پر گردوں کے قریب واقع ایڈرینال گلینڈز اور دماغ adrenalin کا اخراج شروع کر دیتے ہیں۔
دوپہر سے قبل کورٹیزول کی سطح کم ہونا شروع ہو جاتی ہے جب کہ ایڈرینالین اور سیروٹونن کو اخراج جاری رہتا ہے۔
آدھے دن پر میٹابولزم سرگرم ہو جاتا ہے اور جسم کا بنیادی درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمیں بھوک لگتی ہے اور ہم کھانے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
دوپہر کے بعد کورٹیزول کی سطح میں کمی بدستور جاری رہتی ہے۔ میٹابولزم سست پڑ جاتا ہے اور تھکن غالب آ جاتی ہے۔ اس دوران سیروٹونن بتدریج میلاٹونن میں تبدیل ہوتا ہے جس سے نیند محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے جسم میں شکر کی سطح کم ہو جاتی ہے اور صبح 3 بجے جب ہم اپنی آدھی نیند لے چکے ہوتے ہیں تو کورٹیزول 24 گھںٹوں میں اپنی کم ترین سطح پر پہنچ جاتا ہے۔
مذکورہ طبی تحقیق کے دوران ذیابیطس کا شکار 8 مردوں نے 5 ہفتوں تکeTRF غذائی نظام اپنایا پھر 5 دیگر افراد کو روایتی امریکی کھانوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیا گیا۔
روزے پر مبنی نظام میں ہر روز صبح 6:30 سے 8:30 کے درمیان ناشتہ کرایا گیا جب کہ رات کا کھانا سہ پہر تین بجے سے قبل کھلا دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد باقی پورا دن یعنی تقریبا 18 گھنٹے وہ کچھ نہیں کھاتے پیتے تھے۔
روایتی امریکی غذائی نظام میں دیگر افراد نے اپنے کھانے 12 گھنٹوں کے دوران کھائے۔ ان افراد نے کھانوں کی مقدار ، حراروں کی تعداد اور کاربوہائیڈریٹس، پروٹینز اور چکنائی کی اتنی ہی مقدار لی جتنی پہلے گروپ کے افراد نے استعمال کی تھی۔
تجربے کے نتائج حیران کن تھے جہاںeTRF کے پرہیز نے انسولیسن کے حوالے سے ان کی حساسیت کو بہت بہتر بنا دیا اور جسم کے اندر شکر کی سطح میں خطرناک نوعیت کی تبدیلی سے بھی محفوظ رکھا۔ ان افراد میں فشار خون اور تکسیدی دباؤ کی سطح بھی کم ہو گئی۔ مطالعے میں شریک افراد اس بات پر حیران رہ گئے کہ شام کے اوقات میں ان کی ہلکی پھلکی غذا کھانے کی خواہش بھی بڑی حد تک دم توڑ گئی۔
مذکورہ نتائج کی روشنی میں تحقیقی مطالعے کے مرکزی ذمّے دار پروفیسر پیٹرسن کا کہنا ہے کہ غیر مسلسل روزے اور کھانے کے اوقات جاننے کے حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تا کہ صحت پر اس کے اثرات کی جان کاری حاصل کی جا سکے۔