مشی گن: ایک وسیع تحقیقی تجزیئے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ لوگ جو باقاعدگی سے یوگا، مراقبہ یا سانس کی مشقیں کرتے ہیں ان کا دماغ نہ صرف صحت مند رہتا ہے بلکہ وہ اعتماد کے ساتھ فیصلہ کرنے اور اپنے جذبات پر بہتر کنٹرول کرنے کے قابل بھی ہوتے ہیں۔
اس تحقیق میں یوگا، مراقبہ اور سانس کی مشقوں پر کیے گئے 11 مختلف شائع شدہ مطالعات کا جائزہ لیا گیا، جن میں مجموعی طور پر ہزاروں رضاکاروں نے حصہ لیا تھا۔
ان 11 میں سے 5 تحقیقی مطالعات میں نیا نیا یوگا شروع کرنے والوں کے دماغوں کی اسکیننگ کی گئی جو ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ یوگا سیشن لیتے تھے، اور انہوں نے یہ معمول 10 سے 24 ہفتوں تک جاری رکھا۔ باقی کے 6 مطالعات میں یوگا/ سانس کی مشقیں/ مراقبہ کرنے والوں اور نہ کرنے والوں کی دماغی صحت میں موازنہ کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ یوگا اور مراقبہ میں بہت سی باتیں ملتی جلتی ہیں جن میں سانس کی مشقیں بھی شامل ہیں۔
ویسے تو ذہنی صحت پر ان تینوں چیزوں کے مثبت اثرات پہلے بھی سامنے آچکے ہیں لیکن حالیہ مطالعے میں وین اسٹیٹ یونیورسٹی، ڈیٹرائیٹ اور یونیورسٹی آف الینوئے اربانا شیمپین کے ماہرین نے اس تعلق کو زیادہ تفصیل سے دریافت کیا ہے۔
ان تمام مطالعات کی بنیاد پر یہ مجموعی نتیجہ سامنے آیا کہ مراقبہ اور یوگا سے ہپوکیمپس کا سائز بڑھ جاتا ہے۔ ہپوکیمپس کا تعلق یادداشت اور اکتساب (سیکھنے) سے ہے اور الزائیمر بیماری کے حملے میں سب سے پہلے متاثر ہو کر سکڑنے والا دماغی حصہ بھی یہی ہوتا ہے۔
اسی طرح یوگا اور مراقبہ سے دماغ کے دیگر حصے بشمول ایمگڈالا، پری فرنٹل کورٹیکس اور سنگولیٹ کورٹیکس بھی قدرے پھیل جاتے ہیں۔ ان میں سے ایمگڈالا جذبات کے احساس اور اظہار میں اہم کردار رکھتا ہے؛ پری فرنٹل کورٹیکس منصوبہ بندی کرنے اور کسی چیز کو منتخب کرنے یا نہ کرنے میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے؛ جبکہ سنگولیٹ کورٹیکس ایک طرف ہمارے جذبات کو معمول کے مطابق رکھتا ہے تو دوسری جانب یادداشت بہتر بنانے اور اکتساب میں بھی اس کی اہمیت نمایاں ہے۔
تمام مطالعات میں یہ بات مشترکہ طور پر نوٹ کی گئی کہ یوگا اور مراقبہ کرنے والے افراد نے یادداشت اور اکتساب کے حوالے سے کی گئی آزمائشوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔