اپنی مدد آپ کے تحت کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والی ماہر سعودی خاتون اتھلیٹ دینا الطیب کہتی ہیں کہ اہل خانہ اور برادری نے میرے جذبہ کھیل کو زندہ رکھنے میں بہت مدد کی اور میری تمام کسرتی فتوحات انہی کی حوصلہ افزائی کی مرہون منت ہیں۔
دینا الطیب کو 2018 میں پہلی خاتون عرب اتھیلیٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے کہ جس نے آئرن مین ورلڈ چیمپئن شپ کے مقابلوں کے لئے کوالیفائی کیا۔وہ آئرن مین ٹرائتھالون کے سخت مقابلوں کی دوڑ مکمل کرنے والی پہلی سعودی خاتون اتھلیٹ ہیں۔
دینا الطیب پیشے کی اعتبار سے ماہر ڈینٹسٹ ہیں۔ ان کے تین بچے ہیں۔ وہ جس کھیل میں مہارت دکھا کر اپنا لوہا منوا چکی ہیں، اس میں شرکت کے لئے مضبوط سٹمنا درکار ہوتا ہے۔
دینا سٹمنا بڑھانے کے لئے اپنے طور پر ہی کسرتی مشقیں کرتی ہیں، تاہم مشرق وسطیٰ اور سعودی عرب میں ٹرائتھالون مقابلوں کے بکثرت انعقاد اور خواتین کھیلوں کے فروغ کے بعد اس میں شمولیت اختیار کرنے والے کھلاڑی اجتماعی تربیت کے سیشن سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
دینا نے بتایا کہ ’’انہیں خواتین سپورٹس کے موجود حالات دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ میں نے اس میں شمولیت کے لئے اپنے طور پر محنت کی۔ کھیل برادری کا حصہ بننا اچھا لگتا ہے، خاص طور پر یہ جان کر کہ کوئی گروہ آپ کی حوصلہ افزائی کے لئے موجود ہے۔سپورٹس برادری میں بڑھوتری دیکھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے۔ ہم بہت اچھا ٹیلنٹ اور کھلاڑی دیکھ رہےہیں۔‘‘
آئرن مین مقابلہ میں آپ کو سٹمنا کا بھرپور چیلنج درپیش ہوتا ہے۔ اس کے شرکاء کو 3.8 کلومیٹر پیراکی، 180 کلومیٹر سائیکلنگ اور بیالیس کلومیٹر دوڑ مکمل کرنا ہوتی ہے۔الطیب نے بتایا کہ آپ کو یہ ساری ریس مکمل کرنے کے لئے 10-12گھنٹے اوسطاً درکار ہوتے ہیں۔
یہ کمزور دل لوگوں کا کام نہیں!
دینا الطیب نے بتایا کہ اس مقابل میں شرکت کے لئے اپنا آپ تیار کرنے کے لئے کم سے کم نو ماہ تربیت حاصل کرنا ہونا ہوتی ہے۔ غیر متوقع موسمی حالات، ان مقابلوں کی راہ میں سب سے بڑا چیلنج ہیں، اس میں آپ کو کھلے سمندر میں سردی میں پیراکی کرنا پڑ سکتی ہے، یا پھر سخت اور چٹیل پہاڑوں پر آپ کو سائیکل چلانی یا دوڑ لگانا پڑ سکتی ہے۔
سخت جان سعودی خاتون کھلاڑی ’’تکلیف کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘ جیسے مقولے پر یقین رکھتی ہیں۔ مجھے ہمیشہ چار دیواری سے باہر کی کھیلوں میں دلچپسی رہی ہے۔’’میں دوڑ لگاتی رہی ہوں۔ میں نے مارشل آرٹس کیا اور ٹینس کھیلا ہے۔ میں ہمیشہ اس سخت کام کی خواہش کی کہ جس میں اول رہوں۔ میں اپنے مقصد کے حصول کی خاطر خود کو بہت زیادہ کھپاتی ہوں۔‘‘
خواب کا حصول
دینا اپنے خوابوں کی تعبیر کے لئے کئی برسوں سے کوشاں ہیں۔اس مشن میں انھوں نے 15 بین الاقوامی دوڑ کے مقابلوں میں شرکت کی تب جا کر وہ ہوائی میں ہونے والے آئرن مین ورلڈ چیمپئین شپ میں شرکت کی اہل ہو سکیں۔
’’آئرن مین ٹرائتھالون چیمپئین شپ دنیا میں اولمپکس کے مقابل ایونٹس ہیں۔ تین بچوں کی والدہ نے العربیہ انگلش سے انتہائی عاجزانہ لہجے میں بتایا کہ وہ ایسی کل وقتی اتھیلیٹ نہیں کہ جو ماہرین کی ایک ٹیم کے ہمراہ اپنا مستقبل بنا رہی ہوں۔ میں نے اپنی غلطیوں سے سیکھ کر کام میں بہتری لانے کی سکیم پر عمل کیا ہے۔میں عام انسان ہوں اور مجھ جیسا کوئی بھی انسان یہ کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔
دینا الطیب اب تک چودہ فل آئرن مین ریس مقابلوں میں شرکت کر چکی ہیں جبکہ انہوں نے اسی کیٹیگری کے تیس نصف فاصلوں کی دوڑ میں بھی شرکت کی ہے۔نیز وہ ایک سو سے زائد ٹرائتھالون میں شرکت کر چکی ہیں۔ اگلے دو مہینوں میں وہ ایک مرتبہ پھر ہوائی عالمی چیمپئین شپ میں شرکت کے لئے کوالیفائی مقابلوں میں شامل ہونے جا رہی ہیں۔
ہمہ پہلو شخصیت
دینا الطیب صرف ریس کے ٹریک ہی میں نہیں بلکہ زندگی کی دوڑ میں اسی تیزی اور جذبے سے شامل ہیں۔ ان کی روزمرہ زندگی سخت گیر کسرتی پہلوان سے ملتی جلتی ہے جس میں وہ ماں، بیوی، دندان ساز اور ایک دانشور کے طور پر سرگرم دکھائی دیتی ہیں۔انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’’صبح کے وقت میں ایک ماں ہوتی ہوں۔ دن میں ایک ڈینٹسٹ جبکہ شام میں ایک اتھلیٹ۔‘‘
دینا کے بقول ’’وقت کا اچھا مصرف ہی زندگی کے مختلف شعبوں میں کامیابی سے کام کرنے کی کلید ہے۔ میں وقت ضائع کرنا پسند نہیں کرتی۔ میں ٹی وی دیکھنے نہیں بیٹھ جاتی اور نہ ہی سوشل میڈیا پر وقت لگاتی ہوں۔ میں عمومی طور پر اپنا دن احتیاط سے پلان کرتی ہوں۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ میں سعودی عرب میں پروان چڑھی اور مملکت کے ایسے نجی سکول سے تعلیم پائی جہاں تمام کھیلیں بشمول گھڑسواری، ٹیشن اور باسکٹ بال کا اہتمام تھا۔