فرانس کے شہر لیون کی مسجد السلام میں آگ لگنے کا واقعہ ہفتے میں دوسری بار ہے اور اس سے پہلے لیون کے مضافات میں
«براون» سٹی میں نامعلوم افراد نے آگ لگائی تھی۔
شهر لیون کے چیف جج نے واقعہ کو مشکوک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسجد کے اندر پتھر بھی موجود ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیشہ توڑ کر اندر کوئی آیا ہوگا۔
لیون کی مسجد السلام میں آگ لگنے کی تحقیقات پولیس کررہی ہے۔
دونوں مساجد میں آگ لگنے کے بعد مسلمانوں میں خوف کی لہر دوڑ گئی ہے اور انہوں نے مقامی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ مساجد کی کڑی نگرانی کی جائے۔
فرنچ وزیر داخلہ ژرالد دارمانین (Gerald Darmanin نے واقعے کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اسلام، یہودی اور عیسائی کسی کے بھی خلاف ایسی کارروئی جاہلانہ اور افسوسناک ہے۔
لیون کے مئیر پیر اولیویه (Pierre Oliver نے بھی واقعہ کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
فرانس کی مسلم کونسل نے نمازیوں کی حفاظت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج سے ملزمان کو گرفتار کیا جائے۔
مسجد انتظامیہ کے رکن «نادر انجویک» نے آگ لگنے کی اطلاع دی تھی، انکا کہنا تھا کہ مسجد کو مالی حوالے سے کافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ آئندہ ہفتہ کسی اور مسجد کی باری آنے والی ہے۔
مسجد انتظامیہ کے ڈائریکٹر«کمال قبطان» نے کہا ہے کہ مسلمانوں کے دماغ میں سوال اٹھتا ہے کہ اس کا سیاسی مقصد کیا ہوسکتا ہے؟
انکا کہنا تھا کہ فرانس کی مسلم اقلیت پریشان ہوچکی ہے.
مذکورہ مسجد کے سامنے احتجاج بھی کیا گیا۔