پونے کی عدالت نے آئی ٹی انجینئر محسن شیخ کے قتل میں ہندو راشٹر سینا کے رہنما دھننجے دیسائی سمیت 20 افراد کو بری کر دیا ہے۔ مدعا علیہ کا کہنا تھا کہ دیسائی کا قتل میں کوئی کردار نہیں تھا
ممبئی: مہاراشٹر کے پونے ضلع کی ایک عدالت نے جمعہ کے روز 2014 میں انجینئر محسن شیخ (28) کے قتل میں ہندو راشٹرا سینا کے سربراہ دھننجے جے رام دیسائی سمیت 20 لوگوں کو بری کر دیا۔ سولاپور کے رہائشی محسن شیخ کو 2 جون 2014 کو ہڈپسر علاقے میں ہجوم کی جانب سے دیوتاؤں کی تصویروں کی بے حرمتی کے نام پر قتل کیا گیا تھا۔ اس معاملے میں ہندو راشٹر سینا کے لیڈر دھننجے دیسائی سمیت 20 لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق ہندو راشٹر سینا کے لیڈر ملند پوار کے وکیل نے کہا کہ ایڈیشنل سیشن جج ایس بی سالونکے نے ثبوت کی عدم دستیابی کی بنا پر دیسائی سمیت 20 لوگوں کو بری کر دیا ہے۔ پوار نے کہا کہ جب قتل ہوا تھا، اس وقت دیسائی ایک اور مقدمہ کے سلسلہ میں جیل میں قید تھے۔ انہوں نے کہا کہ قتل یا اس کے فوراً بعد ہونے والے فسادات میں دیسائی کا کوئی کردار نہیں تھا۔ دیسائی کو قتل کے کئی دن بعد گرفتار کیا گیا تھا لیکن جنوری 2019 میں انہیں ضمانت مل گئی۔
خیال رہے کہ سولاپور کے رہائشی مقتول محسن شیخ پونے میں ایک پرائیویٹ فرم میں بطور انجینئر کام کرتے تھے۔ سوشل میڈیا پر شیواجی مہاراج اور شیوسینا کے سربراہ بال ٹھاکرے کی مبینہ قابل اعتراض تصاویر کی گردش کے بعد ہونے والی فرقہ وارانہ جھڑپوں کے دوران ہندو راشٹر سینا سے وابستہ شرپسندوں نے محسن پر اس وقت حملہ کیا، جب وہ 2 جون 2014 کو اپنے دوست کے ساتھ نماز ادا کرنے کے بعد گھر لوٹ رہے تھے۔ شدید زخمی حالت میں انہیں اسپتال میں داخل کرایا گیا لیکن دوران علاج انہوں نے دم توڑ دیا۔
اس معاملے میں ان کے بھائی مبین شیخ نے ہڈپسر پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کرائی ہے۔ پولیس کو مبین کی شکایت کے مطابق حملہ آوروں نے محسن اور ریاض کو 9.15 بجے کے قریب انتی نگر کے 7 پلاٹ میں روکا۔ چونکہ محسن کی داڑھی تھی، سر پر ٹوپی تھی اور اس نے ہلکے سبز رنگ کی پٹھانی قمیض پہن رکھی تھی، اس لیے انہوں نے اس پر ہاکی اسٹک سے حملہ کیا اور ان کے سر پر سیمنٹ کا ایک ٹکڑا مارا۔
تاہم، معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے، پولس نے بشمول دھننجے دیسائی ہندو راشٹر سینا کے 21 کارکنوں کے خلاف مقدمہ درج کیا، ، جو پوڈ کے پرمار بنگلہ کے رہنے والے ہیں۔ جہاں ایک ملزم نابالغ بتایا جاتا ہے، باقی 20 کو پولیس نے گرفتار کر لیا، بعد میں سب کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
اس کے ساتھ یہ بھی الزام لگایا گیا کہ محسن کے بعد ہندو راشٹرا سینا کے کارکنوں نے امین ہارون شیخ اور اعجاز یعقوب بگوان سمیت دو اور لوگوں پر بھی حملہ کیا تھا۔ اس دوران پولیس نے ان کے بیانات قلمبند کئے۔ اس کے ساتھ ہی دیسائی کے وکیل نے دلیل دی کہ یہ جاننے کے باوجود کہ وہ جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھے، انہیں جھوٹے طریقے سے کیس میں پھنسایا گیا۔
عدالت نے ملزم کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ دیسائی کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ ملند پوار نے کہا کہ ثبوت کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے تمام ملزمین کو بری کر دیا گیا ہے۔ تاہم مقتول محسن کے اہل خانہ نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ مبین نے ہائی کورٹ میں کہا ’’افسوس کی بات ہے کہ میرے بے گناہ بھائی کا قتل ہوا اور تمام ملزمان کو بری کر دیا گیا۔‘‘