عراق کے شہر موصل کی ایک تاریخی مسجد جسے سنہ 2016ء کو ‘داعش’ نے تباہ کر دیا تھا ایک بار پھر نمازیوں سے آباد ہو گئی ہے۔ سنہ 2017ء کو ‘داعش’ کی بے دخلی کے وقف موصل کی تاریخی مسجد کھنڈرات میں بدل چکی تھی اور وہاں پر نماز ادا نہیں کی جاسکتی تھی۔ کئی سال کے بعد پہلی بار کل جمعرات کو عیدالفطر کی نماز ادا کرکے مسجد کو آباد کیا گیا۔
پرانے موصل شہر میں واقع اس تاریخی مسجد کے کئی نام ہیں۔ اسے جامع مسجد العتیق اور جامع مسجد المصفی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے جامع اموی کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ یہ مسجد ساتویں صدی ھجری کے دور کی ہے۔ موصل میں ‘داعش’ اور عراقی فوج کے درمیان ہونے والی لڑائی میں یہ مسجد بری طرح متاثر ہوئی تھی اور یہ اب بھی مکمل طور پر بحال نہیں ہوسکی۔
عراقی دانشور احمد نجم نے عید کی نماز کے بعد ایک بیان میں کہا کہ ‘یہ واضحپیغام ہے، مسجد المصفی علاقے میں ایک اسلامی مرکز اور اسلام کی یادگار ہے۔یہ صرف اسلام ہی نہیں بلکہ موصل شہرکی بھی ایک علامت ہے۔
‘داعش’ نے اپنی نام نہاد ‘خلافت’ کے قیام کے وقت موصل شہر کو اپنا پایہ تخت بنایا اور مسجد پر گولہ باری کرکے اس کا بیشتر حصہ شہید کردیا گیا تھا۔
مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ شمالی نینویٰ گورنری میں کی طرف سے فنڈنگ کی عدم فراہمی کے باعث موصل کی تاریخی مسجد کی بحالی اور تعمیر نو نہیں ہوسکی ہے۔
مقامی شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت مسجد کے بچے کھچے حصے کو صاف کرنے،فرش ہموار کرنے کے بعد اس پر قالین بچائے۔
ایک مقامی رضا کار ایوب ذنون نے بتایا کہ ‘ہمیں خوشی ہے کہ ہم ایک بار پھر موصل کی تاریخی مسجد میں نماز ادا کرنے پر بہت خوش ہیں مگر مسجد کی تباہی آج تک حکومت کی ناکام کار کردگی پرمنہ چڑا رہی ہے۔