لکھنئو | گھروں میں تعزیہ رکھنے پر عائد پابندی اور مجالس میں تعداد کے سلسلے میں سنیچر کو مولانا کلب جواد کی جانب سے دیے جا رہے دھرنے کے مدد نظر حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم کر لئے ہیں اس کے بعد مولانا کلب جواد نے سنیچر دیر رات غفرانمآب میں اپنا دھرنا مظاہرہ ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد دھرنے پر بیٹھے لوگ اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔
آپ کو بتا دیں کہ نئے حکم کے مطابق گھروں میں تعزیے رکھنے اور عزاداری پر کوئی پابندی نہیں رہے گی۔ جبکہ سماجی فاصلے کے ساتھ مجالس کا انعقاد بھی ہو سکے گا۔ یہ حکم ریاست کے سبھی اضلاح کو جاری کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی حکومت نے سبھی اضلاع کے علماء کی فہرست مہ فون نمبر کے ساتھ مانگی ہے جس سے کسی بھی طرح کی دشواری ہونے پر بات چیت کی جا سکے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سبھی اضلاع کے ڈٰی ایم کو یہ سخت ہدایت دی گئی ہے کہ محرم کو پُر امن طریقے سے منعقد کرائیں۔
مولانا کلب جواد نے کہا کہ ” ہم حکومت سے چنندہ لوگوں کے ساتھ عزاداری اور تعزیہ داری کی اجازت چاہتے تھے، لیکن حکومت نے ہماری نہیں سنی۔
شیعہ عالم مولانا کلب جواد نے کورونا بحران کے دوران تعزیہ داری پر لگائی گئی پابندی کے خلاف اپنی آواز مزید بلند کر دی ہے۔
انھوں نے حکومت کی گائیڈ لائن کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے تعزیہ لے جانے کی اجازت انتظامیہ مانگی تھی لیکن اب تک اس کا کوئی جواب نہیں ملا ہے۔ مولانا کلب جواد حکومت کی اس روش سے ناراض ہو کر ہفتہ کے روز سینکڑوں افراد کے ساتھ دھرنے پر بیٹھ گئے ہیں۔
میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق مولانا کلب جواد غفران ماب امام باڑے میں دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ دھرنا پر بیٹھنے سے قبل انھوں نے ایک پریس کانفرنس کیا جس میں واضح لفظوں میں کہا کہ انھوں نے حکومت سے لگاتار عزاداری اور تعزیہ داری کی اجازت مانگی لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔
مولانا کلب جواد نے میڈیا سے کہا کہ “محرم کی بنیاد لکھنؤ سے ہی ہے۔ پوری دنیا میں یہاں کی عزاداری مشہور ہے۔ ہم حکومت سے چنندہ لوگوں کے ساتھ عزاداری اور تعزیہ داری کی اجازت چاہتے تھے۔ ہم نے حکومت سے کہا تھا کہ وہ ہمیں امام باڑے میں سوشل ڈسٹنسنگ کے ساتھ مجلس کرنے کی اجازت دے، لیکن حکومت نے ہماری نہیں سنی۔ اتنا ہی نہیں، حکومت نے گھروں میں بھی تعزیہ رکھنے کی اجازت نہیں دی۔”