خطۂ عرب کا ملک شام فی الحال جنگ کے شعلوں میں گھرا ہے اور ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے جبکہ لاکھوں ترک وطن پر مجبور ہیں۔
آج شام میں چہار جانب تباہی، بے وطنی، غریبی، بے روزگاری کا مایوس کن منظر پھیلا ہوا ہے۔ عدم تحفظ کا ایسا ماحول ہے کہ لوگ اپنے ہی گھروں میں قید ہیں۔ خوف ان کا ہمہ وقت تعاقب کر رہا ہے۔
بہت سے شامی باشندے اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں پناہ گزین ہیں۔
ایسے حالات میں اگر آپ کو یہ بتایا جائے کہ موسیقی کی لے پر تیار کیا جانے والا دنیا پہلا گیت شام میں تیار ہوا تھا تو آپ کو یقین نہیں آئے گا۔
روح میں موسیقی
شام ایک ایسا ملک ہے جس کی روح میں موسیقی بسی ہوئی ہے اور اسی نے دنیا کو موسیقی کی دلکشی سے روشناس کرایا اور ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر پیار سے محبت سے رہنے کا سبق پڑھایا۔
یہاں مسلمانوں کے ساتھ یہودی، مسیحی اور کرد نسل کے لوگ آباد تھے اور سب نے اپنی اپنی سطح پر یہاں موسیقی کے ورثے کو بڑھانے میں حصہ لیا۔
دنیا کے پہلے گیت کی دھن
سنہ 1950 میں کھدائی کے دوران آثار قدیمہ کے ماہرین کو یہاں سے تقریباً 3400 سال پرانی مٹی کی 29 تختیاں ملی ہیں۔
اگرچہ ان میں سے اکثر تختیاں ٹوٹی ہوئی ہیں لیکن ان میں سے ایک سالم ہے۔ جس پر موسیقی کی کچھ دھنیں نقش ہیں اور اس پٹی کو ایچ 6 کا نام دیا گیا ہے۔
ماہرین اسے دنیا کا پہلا گیت قرار دے رہے ہیں اور یہ گیت شام میں تیار کیا گیا تھا۔
بحیرۂ روم کے ساحل پر واقع شام کے جس علاقے میں یہ تختیاں ملی ہیں ان کے بارے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کبھی ان کی لائبریری رہی ہوگی۔
بہت سے سائنسدان ان ٹوٹی ہوئی تختیوں کو جوڑنے اور پر رقم زبان کو پڑھنے کی کوشش میں لگے ہیں۔
ان مٹی کی تختیوں پر بابل کی میخی یا کیونیفورم رسم خط میں گیت کندہ ہے۔ یہ رسم خط صدیوں پہلے بیبیلونیا یا بابل میں رائج تھی۔
موسیقی کی زبان
عراق یونیورسٹی کے پروفیسر رچرڈ ڈمبریل کہتے ہیں کہ یہ رسم خط آرمینیا سے آنے والی لوگوں کی تھی جسے کیورین کہا جاتا ہے۔
لیکن انھوں نے جو علامات استعمال کی ہیں وہ بابل تہذيب میں استعمال ہوتی تھیں لہٰذا ان تختیوں پر کندہ زبان کا درست ترجمہ پیش کرنا مشکل ہے۔
لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ علامات موسیقی کی زبان ہیں۔
ان تختیوں پر کندہ زبان کو جس قدر پروفیسر ڈمبریل نے سمجھا ہے اس کی بنیاد پر ان کا کہنا ہے اس زمانے جو لوگ شام میں آباد ہوئے تھے ان کے پاس ہر موقع کے لیے کوئی نہ کوئی دھن تھی۔
قدیم زمانے کے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ ایک گیت میں ایک بار گرل یا مے خانے کی مطربہ کی کہانی بیان کی گئی ہے جبکہ ایچ 6 پر جو چیز رقم ہے اس میں کئی دلچسپ کہانیاں ہیں۔
عود نامی ساز
موسیقی عہد قدیم کے شامی باشندوں میں جنون کی حد تک تھا لہٰذا انھوں نے نہ صرف دھنیں تیار کیں بلکہ موسیقی کے آلات بھی بنائے۔
مثال کے طور پر وینا اور طنبورہ ان کی ہی دین ہے بعد میں عرب کے لوگوں نے ان سے متاثر ہوکر عود تیار کیا۔
اس ساز کی خصوصیت یہ ہے کہ اس سے نکلنے والی آواز یاد ماضی کو تازہ کر دیتی ہے۔
بیسویں صدی میں شام کے پرانے علاقوں کی کھدائی کے دوران ابتدائی کانسی کے عہد والے شہر مری سے محققین کو ایسے بہت سے شواہد ملے ہیں جو وہاں بڑے پیمانے پر موسیقی کے سازوں کے کاروبار کا پتہ دیتے ہیں۔
اس شہر سے مٹی کی بہت سی تختیاں ملی ہیں جن میں سازوں کی خریدو فروخت کی تفصیل درج ہے۔ بعض تختیوں پر خام مال جیسے لکڑی، چمڑے اور سونے چاندے کے آرڈر بھی درج ہیں۔
پروفیسر ڈمبریل کا کہنا ہے کہ جن پرانے باشندوں نے دور دراز سے آ کر شام میں سکونت اختیار کی تھی وہ اپنے ساتھ موسیقی کی وراثت بھی لائے تھے اور چار ہزار سال پہلے انھوں نے موسیقی کے آلات بنائے تھے۔
جب بیرونی عناصر شام کی اپنی ثقافت کا میل ہوا تو موسیقی کو مزید فروغ حاصل ہوا۔
جدید سرحدیں بننے سے پہلے کی ثقافت
شام میں موسیقی کے آلات بنانے کا کام صدیوں پرانا ہے اور وقت کے ساتھ اس میں مزید نکھار آيا۔ بہت سے قدیمی ساز شامیوں نے بطور یاد گار رکھ رکھے ہیں۔
موسیقی کے دلدادہ دور دور سے انھیں دیکھنے یہاں آتے ہیں۔ مثال کے طور پر لبنان کے شہر سعیدہ میں عثماني عہد سلطنت کے ڈببن محل میں بہت سے پرانے زمانے کے ساز محفوظ ہیں۔
موسیقی کا رواج
ڈببن محل میں تعینات گائیڈ غاسن ڈمسے کا کہنا ہے سلطنت عثمانیہ میں موسیقی بہت رائج تھی۔
یہاں خواتین بھی ہر طرح کے ساز بجانا جانتی تھیں اور محافل موسیقی سجاتی تھیں۔
گذشتہ سال شام نے اپنے دوسرے سب سے بڑے شہر حلب کو یونیسکو کے تخلیقی شہری نیٹ ورک میں ‘سٹی آف میوزک’ کے طور پر شامل کروایا ہے۔
دراصل 17ویں صدی میں حلب اپنی موسیقی اور شاعری کے امتزاج ‘موشہ’ کے لیے معروف تھا۔ اس میں بہت سے ممالک جیسے کلاسیکی عربی شاعری، اندلس کی شاعری اور مصری شاعری شامل تھی۔ خیال رہے کہ اندلس اب سپین ہے۔
موشہ جدید دور کے بینڈ کی شکل میں پیش کیا جاتا تھا جس میں گلوکار کے ساتھ بہت سے سازندے ہوتے اور مختلف سازوں پر اپنے ہنر دکھاتے۔
دونوں معاشرے کے افراد شامل
قانون نامی ساز میں عمودی بورڈ پر تار لگے ہوتے اور اسے بجانے پر پانی گرنے کی آواز آتی۔ اسے دور حاضر کا سنتور کہا جا سکتا ہے۔ کمنجہ دور حاضر کا وائلن کہا جا سکتا ہے جبکہ دارابکہ (ڈھول) اور دف جیسے ساز تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ موشہ میں مسلم اور مسیحی دونوں برادری کے لوگ شامل ہوتے تھے۔ یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ شام میں موسیقی مذہب کی دیوار گرا کر لوگوں کو قریب لانے کا ذریعہ تھا۔
بہرحال شام کی موجودہ صورتحال میں لوگ صرف اپنی جانوں کی حفاظت کے بارے میں سوچ رہے ہیں لیکن بہت سارے موسیقی کے دلدادہ ایسے ہیں جو ان کو بچانے کے کاموں میں لگے ہیں اور اسے دنیا کے سامنے لا رہے ہیں۔
لبنانی شہر بیروت اس میں سب سے اہم کردار ادا کر رہا ہے
سنہ 2015 میں معزف نامی ایک تنظیم لبنان کے دارالحکومت میں قائم کی گئي ہے۔ اس کا مقصد شام اور سارے مشرق وسطیٰ کی موسیقی کی وراثت کو سنبھالنا ہے۔
اسی طرح دارالحکومت بیروت میں الصعلیک نامی ایک بینڈ ہے جس میں شام اور ناروے کے موسیقار شامل ہیں۔
یہ بینڈ اپنا موازنہ رابن ہڈ سے کرتا ہے جس نے اپنی طرح سے حکمراں طبقے کے کام کے طریقے کو بدلنے کی کوشش کی تھی۔ اس بینڈ کے ایک گلوکار مونا کہتے ہیں کہ ‘موسیقی ہماری شناخت اور ورثہ ہے اور اس کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔’
… موسیقی کا سہارا
موسیقی کے یہ شیدائی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف موسیقی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
سماج میں پھیلی برائیوں کے خلاف لڑنے کے لیے بھی موسیقی کا سہارا لے رہے ہیں۔
اسی طرح، لبنان میں ایک اور گروپ ہے جو سنہ 2013 سے شام کے لوک گیتوں کی ملک میں تشہیر کر رہا ہے۔