پوری دنیا میں مکھیوں کے چھتے تیزی سے تباہ ہورہے ہیں جسے ’کالونی کولیپس ڈس آرڈر‘ (سی ڈی سی) کہا جاتا ہے۔ سال 2006ء میں پہلی بار سی ڈی سی عمل کو دیکھا گیا اور اب تک کروڑوں اربوں مکھیاں ختم ہوچکی ہیں۔
دوسری جانب مکھیوں کے قدرتی مسکن کی تباہی، موسمیاتی تبدیلیوں اور کیڑے مار دوائیں سے بھی ان کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ مکھیوں کے خاتمے سے دنیا کی کئی فصلوں اور اجناس کو نقصان پہنچے گا کیونکہ مکھیاں ایک ایک پھل اور پھول پر جاکر اس کی بارآوری اور زرخیزی میں اضافہ کرتی ہیں۔ اب یہ حال ہے کہ مکھیوں کے ناپید ہونے کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔
بی اونی کا کہنا ہے کہ اگر میں گرین پیس جیسی کسی تنظیم کا رکن بن کر کام کرتا تو لوگ مکھیوں کے باتیں سن سن کر جلد ہی تنگ آجاتے لیکن موسیقی کے ذریعے عوام تک یہ پیغام اچھی طرح پہنچایا جاسکتا ہے کہ مکھیاں خطرے میں ہیں اور موسیقی اس شعور میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بی اونی ہر شے میں ماحول کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ان کا ’سنتھے سائزر‘ ری سائیکل اشیا سے تیار کیا گیا ہے اور وہ شہد کو بطور برقی مزاحم (رزسٹر) استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کام آرٹ گیلریوں اور ماحول دوست میوزک فیسٹیول میں پیش کیا جاتا ہے جہاں لوگ انہیں سراہتے ہیں۔
بی اونی کے پاس شہد کی مکھیوں کی مختلف آوازوں کا بہت بڑا ڈیٹا بیس ہے جسے وہ مختلف میوزک میں استعمال کرتے ہیں۔