میانمار کی مغربی ریاست راکھائن میں فوج کی فائرنگ اور گولہ باری سے کم از کم 5 روہنگیا مسلمان جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔
قانون ساز اور مقامی رہائشیوں نے بتایا کہ گزشتہ روز مراک یو قصبے میں 12 سالہ لڑکے سمیت 5 مسلمان جاں بحق ہوگئے۔
زخمی ہونے والے روہنگیا مسلمانوں کی تعداد کے 6 سے 11 تک بتائی گئی۔
میڈیا رپورٹس میں مقامی روہنگیا باشندے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جاں بحق افراد کی لاشوں پر گولیوں کے زخم تھے۔
انہوں نے مزید کہا مقتولین کا آخری رسومات آج ادا کی گئی۔
مقامی لوگوں نے بتایا کہ ‘ہم باہر نہیں نکل سکتے، ہم کہیں نہیں جا سکتے’۔
انہوں ںے بتایا کہ ‘ہم صرف اپنے گاؤں میں محفوظ ہیں، اگر یہ ہوتا رہا تو مجھے لگتا ہے کہ کوئی امید نہیں ہے’۔
علاقائی رکن پارلیمنٹ تون تھر سین نے کہا کہ ہفتے کی لڑائی اس وقت شروع ہوئی جب راکھائن میں بدھسٹ کے حامیوں پر مشتمل جنگجوؤں نے فوجی قافلے پر حملہ کیا۔
قانون ساز نے مزید کہا کہ جواب میں فوجیوں نے شورش زدہ علاقے کے دو دیہاتوں پر فائرنگ اور گولہ باری کی۔
دوسری جانب میانمار کی فوج نے دعوی کیا کہ عسکریت پسند گروہ شہریوں کی موت کے ذمہ دار ہیں۔
اس ضمن میں ریاست راکھین کی مزید خودمختاری کے خواہاں عسکریت پسندوں کے ترجمان کھین تھو کھا نے فوجی دعوے کو مسترد کردیا۔
انہوں نے کہا ریاستی فوج کو شہری کی ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
جنوری کے اوائل میں ایک دھماکے میں 4 روہنگیا بچے ہلاک ہوگئے تھے اور فوج اور باغیوں نے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے تھے۔
25 جنوری کو میانمار کے فوجیوں نے روہنگیا گاؤں پر گولہ باری کی جس میں ایک حاملہ خاتون سمیت دو خواتین ہلاک اور 7 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
خیال رہے کہ 2018 میں میانمار کی شمالی ریاست رخائن میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد 7 لاکھ 20 ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔
میانمار کی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت روہنگیا مسلمانوں کی تھی جبکہ لاکھوں کی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں نے جان بچا کر بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کی تھی، جہاں ان کی حالت غذائی قلت کے باعث ابتر ہوگئی تھی
جس کے بعد اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیٹی نے میانمار میں نسل کشی میں ملوث اعلیٰ فوجی حکام کے خلاف مقدمات قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاہم میانمار کی حکومت نے اس مطالبے کو مسترد کردیا تھا۔
عالمی عدالت انصاف نے میانمار کو روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی روکنے اور انہیں ظلم و ستم سے بچانے کے ساتھ ساتھ روہنگیا کے خلاف ہونے والے مبینہ جرائم کے ثبوت اکٹھے کرنے کا حکم دیا تھا۔
مسلم اکثریت آبادی کے حامل ملک گیمبیا نے اقوام متحدہ میں ممالک کے درمیان تنازعات کے حل کے فورم عالمی عدالت انصاف میں 2018 میں انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میانمار پر 1948کے کنونشن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے میانمار میں نسل کشی کر رہا ہے۔
ہیگ میں عدالت کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے سے چند لمحے قبل ہی فنانشل ٹائمز نے میانمار کے رہنما آنگ سان سوچی کا انٹرویو شائع کیا جنہوں نے اس میں کہا کہ روہنگا مسلمانوں کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب ضرور کیا گیا ہوگا لیکن پناہ گزینوں نے ان جرائم اور مظالم کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔
گزشتہ ماہ سماعت کے دوران 1991 میں امن کا نوبیل انعام جیتنے والی سوچی نے ججوں کو مقدمہ خارج کرنے کا مشورہ دیا تھا۔