میانمار کی فوجی عدالت نے ملک کی معزول رہنما آنگ سان سوچی کو کرپشن کے الزام میں 6 سال قید کی سزا سنادی جس سے ان کی ابتدائی 11 سال قید کی سزا بڑھ کر 17 سال ہوگئی ہے۔
خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق 77 سالہ آنگ سانگ سوچی کو گزشتہ سال یکم فروری میں فوج نے بغاوت کے ذریعے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد حراست میں لے لیا تھا، جس سے اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں جمہوریت کے مختصر دور کا خاتمہ ہوگیا تھا۔
اس کے بعد سے وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، بدعنوانی اور انتخابی دھوکا دہی سمیت متعدد مقدمات میں انہیں مجرم ثابت ہونے پر 11 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
میڈیا سے گفتگو کے مجاز نہ ہونے کے سبب شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر ذرائع نے بتایا کہ آنگ سانگ سوچی کو انسداد بدعنوانی کے 4 الزامات کے تحت 6 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
ذرائع نے بتایا کہ ان پر عائد ہر الزام میں زیادہ سے زیادہ 15 سال قید ہو سکتی ہے، آنگ سانگ سوچی کو ہر ایک کیس میں 3 سال کی سزا سنائی گئی لیکن 3 سزائیں ایک ساتھ دی جائیں گی۔
ذرائع نے مزید کہا کہ بظاہر ان کی اچھی صحت ہے اور سزا کے بعد انہوں نے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
نوبل انعام یافتہ معزول رہنما کو پہلے ہی بدعنوانی، فوج کے خلاف اکسانے، کورونا کے قوانین کی خلاف ورزی اور ٹیلی کمیونیکیشن قانون کو توڑنے کے جرم میں 11 سال قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔
صحافیوں کو عدالت میں ہونے والی سماعتوں میں شرکت سے روک دیا گیا اور آنگ سانگ سوچی کے وکلا کے لیے میڈیا سے بات کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔
امریکا نے آنگ سانگ سوچی کی اس تازہ ترین سزا کو انصاف اور قانون کی حکمرانی کی توہین قرار دیا ہے۔محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’ہم میانمار حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ غیر منصفانہ طور پر حراست میں لیے گئے تمام جمہوری طور پر منتخب عہدیداروں سمیت آنگ سان سوچی کو فوری طور پر رہا کرے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ملک کی فوجی حکومت کی جانب سے آنگ سان سوچی کی غیر منصفانہ گرفتاری اور سزا، انصاف اور قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزی ہے‘۔
علاوہ ازیں یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے آنگ سانگ سوچی کی سزا کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے مذمت کی اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ درجنوں ‘پیپلز ڈیفنس فورسز‘ بھی فوجی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہیں اور فوج کو اپنے موثر ردعمل سے حیران کر دیا ہے۔
ایک مقامی مانیٹرنگ گروپ کے مطابق کریک ڈاؤن کے نتیجے میں 2 ہزار سے زائد شہری ہلاک اور 17 ہزار کے قریب گرفتار ہوئے ہیں۔
گزشتہ 30 برسوں سے زائد عرصے سے آنگ سانگ سوچی میانمار کی جمہوری امیدوں کا عکاس رہی ہیں لیکن اب ان کی طویل سزا کا مطلب یہ ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لینے سے محروم ہو جائیں گی کیونکہ فوجی حکومت آئندہ سال انتکاب کے انعقاد کا ارادہ رکھتی ہے۔
آنگ سانگ سوچی اب جیل کی چار دیواریوں تک محدود ہیں، بیرونی دنیا سے ان کا تعلق وکلا کے ساتھ مقدمے سے پہلے کی مختصر ملاقاتوں تک محدود ہے۔
فوجی بغاوت کے بعد سے ان کے بہت سے سیاسی اتحادیوں کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے، جن میں سے ایک وزیر اعلیٰ کو 75 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔