میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف ایک لاکھ سے زائد افراد سڑکوں پر نکل آئے اور آمریت کے خلاف بھرپور نعرے بازی کی۔
غیرملکی خبررساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق مظاہرین نے فوج کے اس دعوے کو مسترد کردیا کہ انہیں عوامی کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔
میانمار کے مرکزی شہر ینگون میں ایک مظاہرے میں شہریوں نے سرخ پرچم کے ساتھ مارچ کیا اور معزول رہنما آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کے ساتھ اپنی وفاداری اظہار کی۔
ریلی کی وجہ سے مرکزی شاہراہوں کے جنکشن بند ہوگئے اور لوگوں اپنی گاڑیاں ایک طرف پارک کرکے مظاہرین کے ہمراہ شامل ہوگئے۔
میانمار کے دوسرے بڑے شہر منڈالے میں بھی بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے۔
مظاہرین میں طلبہ، انجینئر اور کسان شامل تھے۔
مظاہرے منگل کے روز ایک فوجی ترجمان کے ان دعوؤں کے بعد سامنے آئے کہ ‘مظاہرے کم ہوجائیں گے اور ملک کی 53 ملین آبادی میں سے 40 ملین افراد نے اقتدار پر قبضے کی حمایت کی’۔
ینگون میں احتجاج کرنے والوں میں شامل ایک ریٹائرڈ استاد نے بتایا ‘میں آنگ سان سوچی اور دیگر قائدین کی فوری رہائی چاہتا ہوں کیونکہ ہم اپنی جمہوریت واپس چاہتے ہیں’۔
نوآبادیاتی دور کی ایک وسیع و عریض عمارت سیکریٹریٹ کے باہر ایک ہزار یونیورسٹی عملہ اور طلبہ جمع تھے۔
میانمار میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ تھامس اینڈریوز نے کہا کہ ریلیوں سے قبل انہیں دوسرے علاقوں سے فوجیوں کو ینگون پہنچائے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ فوجی میانمار کے عوام کے خلاف بڑے جرائم کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں فوج کی اس طرح کی نقل و حرکت سے قتل و غارت، لاپتا ہونے اور بڑے پیمانے پر نظربندیاں ہوئی تھیں۔
میانمار کے فوجی جرنیلوں نے حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد 75سالہ آنگ سان سوچی سمیت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے درجنوں رہنماؤں کو گرفتار کر لیا تھا۔
جرنیلوں نے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے اس کی وجہ پچھلے سال نومبر میں ہوئے انتخابات میں دھاندلی کو قرار دیا جہاں مذکورہ انتخابات میں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے کلین سوئپ فتح حاصل کی تھی۔
میانمار میں فوج نے کئی دہائیوں تک حکومت کی لیکن ایک دہائی قبل عوامی حکومت کو اقتدار سنبھالنے کا موقع دیا۔
فوجی حکومت میں زیادہ عرصہ تک نظربند رہنے والی اپوزیشن لیڈر آنگ سان سوچی کو ان کی کاوشوں پر امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔