میانمار کی حکومت نے 4 قیدیوں کو پھانسی دے دی ہے، موت کے گھاٹ اتارے گئے افراد میں آنگ سان سوچی کی پارٹی کے ایک سابق قانون ساز اور ایک معروف سیاسی کارکن بھی شامل ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ان افراد کو سرائے موت دی جانے کی خبر سرکاری میڈیا نے رپورٹ کی جب کہ ملک میں کئی دہائیوں بعد سزائے موت دی گئی ہے۔
سزائے موت کے اقدام کی امریکا اور فرانس سمیت بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی ہے، مزید افراد کو سزائے موت دیے جانے کے بڑھتے خدشات کے باعث عالمی رادری سے پہلی عالمی تنہائی کی شکار آمرانہ، جابرانہ حکومت کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
گلوبل نیو لائٹ آف میانمار نامی اخبار نے رپورٹ کیا کہ ان چاروں کو افراد کو وحشیانہ اور غیر انسانی دہشت زدہ کرنے والی کارروائیوں کے جرم میں پھانسی دی گئی۔
اخبار نے اپنی رپورٹ میں یہ نہیں بتایا کہ ان چاروں افراد کو کب اور کیسے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
موجودہ آمرانہ، جابرانہ حکومت نے گزشتہ سال اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران درجنوں بغاوت مخالف سیاسی کارکنوں کو موت کی سزا سنائی تھی لیکن میانمار نے کئی دہائیوں سے کسی مجرم کو پھانسی کی سزا نہیں دی تھی۔
آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) سے تعلق رکھنے والے سابق قانون ساز فیو زیا تھا کو نومبر میں گرفتار کیا گیا تھا، انہیں انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت جرائم کے ارتکاب پر جنوری میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
جمہوریت پسند سیاسی کارکن کیاومن یوجنہیں ‘جمی’ کے نام سے جانا جاتا تھا ، انہیں ملٹری ٹریبونل کی جانب سے موت کی سزا سنائی گئی۔
سفارتی مذمت
پھانسیوں کی امریکا کی جانب سے فوری طور پر مذمت کی گئی، امریکا نے “جمہوریت کے حامی رہنماؤں اور منتخب عہدیداروں کو بنیادی آزادی کے حق کو استعمال کرنے پر پھانسی دینے کے اقدام پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
ینگون میں امریکی سفارت خانے نے اپنے جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہم میانمار کے عوام کے غم میں شریک ہیں۔
میانمار کو معاشی مدد فراہم کرنے والے ایک بڑے ملک جاپان نے کہا کہ اسے پھانسیوں پر “سخت تاسف اور گہرا غم ہے۔
فرانس نے پھانسیوں کو بغاوت کے بعد میانمار کی حکومت کی جانب سے بڑھتے ہوئے سفاک مظالم کا ایک نیا مرحلہ قرار دیا۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سربراہ نے بھی اپنے ایک بیان میں اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا۔
انسانی حقوق کی پامالی پر فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ ظالمانہ قدم فوج کی اپنے ہی لوگوں کے خلاف جاری جابرانہ مہم کا تسلسل اور توسیع ہے۔
جدوجہد کی تاریخ
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق تقریباً 100 دیگر افراد بھی اس وقت جابرانہ حکومت کی عدالتوں سے مجرم قرار دیے جانے کے بعد سزائے موت کی لائن میں موجود ہیں۔
لیکن سزا پانے والوں میں فیو زیا تھا اور کیاو من یو سب سے نمایاں تھے۔
موت کے گھاٹ اتارے گئے دیگر 2 افراد کو ایک خاتون کو قتل کرنے کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی تھی، خاتون پر ملزمان نے الزام لگایا تھا کہ وہ حکومت کے لیے مخبری کرنے میں ملوث تھی۔
فیو زیا تھا 2015 کے انتخابات میں این ایل ڈی کی نمائندگی کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوئےتھے۔
موجودہ حکومت کی جانب سے ان پر حکومتی افواج پر حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام لگایا، ان پر عائد الزامات میں گست میں ینگون میں مسافر ٹرین پر حملہ کرنا بھی شامل جس میں 5 پولیس اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
کیاو من یو میانمار کی 1988 میں ملک کی سابقہ فوجی حکومت کے خلاف طلبا کی بغاوت کے دوران منظر عام پر آئے تھے، انہوں نے اپنی جمہوریت نواز سرگرمیوں کی وجہ سے گزشتہ حکومت میں طویل عرصے تک جیل میں رہہ چکے تھے۔