
زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے والے جرات حسین کبھی انگریزوں کی فوج میں رہے تو آزادی کے بعد اترپردیش پولیس میں سپاہی رہ چکے ہیں.
جرات حسین کو اپنے دور میں بہت سے ڈکیتوں کو پکڑنے کا کریڈٹ ملا. سات بار صدر سے نوازا ہو چکے جرات حسین آج کے رہنماؤں اور سیاست سے خفا ہیں. وہ اپنی ملازمت کے دوران کی ایک قصہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایک بار وہ ایک ڈکیت کو پکڑ کر عدالت میں پیش کرنے لے جا رہے تھے، ڈکیت کی بہن کی شادی اگلے ہی دن تھا. ڈکیت نے بہن کی شادی کی دہائی دی اور شادی کے بعد خود اعتراف کرنے کا وعدہ کیا. پہلے تو انہوں نے یقین نہیں کیا. بعد میں اسے چھوڑ دیا. اگلے دن وہ حیران رہ گئے کیونکہ شادی کرنے کے بعد ڈکیت نے خود آکر گرفتاری دی تھی.
وہ کہتے ہیں کہ ڈکیت کی ایمانداری دیکھ کر بہت خوش ہوئے. تب ڈکیتوں پر بھی اعتماد کیا جا سکتا تھا. مگر آج کے رہنماؤں پر انحصار کرنا سب سے بڑی بے ایمانی ہے، یہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور ہی ہیں.
جرات حسین کا کہنا ہے کہ آج مہنگائی، بدعنوانی اور بے روزگاری کافی بڑھ گئی ہے، اس کے بعد دس روپے تنخواہ میں آدھے سے زیادہ بچا لیتے تھے. آج مہنگائی کمر توڑ رہا ہے، تنخواہ حاصل کرنے والے بھی نہیں خوش ہیں اور جو بے روزگار ہیں، ان کا درد تو پوچھئے ہی مت.
ایک سو بیس سے بھی زیادہ لوگ ہیں کنبے میں: مرکزی وزیر مختار عباس نقوی کے نانا سید جراتحسین کاظمی کے خاندان میں آٹھ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں. ایک بیٹی تہذیب فاطمہ جو مختار عباس کی ماں تھی، اب ان کا انتقال ہو چکا ہے.