انڈیا کی پہلی فاسٹ فوڈ چین نرولاز کے بانی دیپک نرولا کی گذشتہ ہفتے وفات نے ان کی کمپنی سے منسلک یادوں کو تازہ کیا۔
سنہ 1970 اور 1980 کے درمیان دارالحکومت نئی دہلی میں بڑے ہونے والوں کے لیے نرولاز ایک ریستوران سے بھی زیادہ اہم ہے۔ یہ دراصل ایک جذبے کا نام ہے۔
اس ریستوران نے دہلی میں گھر سے باہر کھانا کھانے سے متعلق رویے بدل دیے اور میکڈونلڈز اور کے ایف سی کے ملک میں آنے سے قبل فاسٹ فوڈ کی نئی اقسام متعارف کروائیں۔
اکثر افراد کے لیے یہ ریستوران ‘ہاٹ چاکلیٹ فج’ نامی میٹھے کے باعث ان کا پسندیدہ تھا۔ نرولاز کی کہانی سنہ 1942 سے شروع ہوتی ہے جب ملک کا مقبول کوناٹ پیلس ابھی تعمیر کے مراحل میں تھا۔
دو بھائی لکشمی چاند نرولا اور مدن نرولا نے اس علاقے میں گراؤنڈ فلور پر ہی ایک بڑی دکان خریدی اور ایسے ریستوران کی شروعات کی، جس میں انڈین اور کانٹیننٹل کھانا پیش کیا جاتا تھا۔
اس ریستوران کو مقبول ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس ریستوران نے شہر میں متعدد چیزیں پہلی مرتبہ متعارف کروائیں جن میں کھانوں کی اقسام، تفریح کے مواقع، ناچ گانا اور جادو کے شو شامل ہیں۔
ایک جریدے ‘سیمینار’ میں شائع ہونے والی تحریر میں دیپک نرولا کے بھائی للت نرولا نے ایک ایسے باقاعدگی سے آنے والے گاہک کے بارے میں لکھا جو ایک نوجوان فوجی افسر تھے اور انھیں 1940 کی دہائی کے وسط میں جنگ کے دوران یہاں تعینات کیا گیا تھا۔
‘وہ ہمارے ریستوران میں ہفتے میں ایک بار موٹر سائیکل پر آتے تھے اور دیسی کھانے کی فرمائش کرتے کیونکہ ان کے برطانوی فوج کے میس میں پھیکا برطانوی کھانا ہی دستیاب ہوتا تھا۔’
تاہم سنہ 1947 میں تقسیم ہند کے بعد سے آزاد انڈیا میں صورتحال تبدیل ہو گئی۔ جیسے ہی گاہکوں کی تعداد میں کمی آئی نرولا خاندان کی جانب سے ریستوران بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن ساتھ اسی جگہ تین نئی کھانے کی جگہیں کھولنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس میں 150 سیٹوں کی گنجائش والا جدید کیفے، فرانسیسی کھانوں کا ریستوران اور چینی کھانوں کا ریستوران شامل تھا اور یہ 50 برس تک کامیابی سے چلتے رہے۔
آنے والے برسوں میں نرولا خاندان کی جانب سے کئی دوسرے ریستوران بھی کھولے گئے جن کی کوئی خصوصیت ہوا کرتی تھی جیسے پیزا، برگر، سافٹ ڈرنکس اور نئے آئس کریم فلیورز وغیرہ۔
ان سب کی قیمت اتنی رکھی جاتی تھی کہ یہ متوسط طبقے کی پہنچ میں رہیں۔
للت نرولا کے مطابق یہ ریستوران اتنے مقبول ہو گئے کہ ‘مہاراجہ اور ٹیکسی ڈرائیورز دونوں ہی ان ریستورانوں میں آتے اور کئی مرتبہ ایک ہی ٹیبل پر کھڑے ہو کر کھانا کھاتے۔’
اور یوں نرولا اس شہر کی توسیع کے طور پر سامنے آیا اور کوناٹ پیلس میں موجود اس ریستوران نے اپنی چار دیواری میں اور اس کے باہر تاریخ بنتے ہوئے دیکھی۔
یہ بھی پڑھیے
یہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں جوان اور عمر رسیدہ افراد آئس کریم آرڈر کر کے کسی بات کا جشن مناتے یا اپنی گرل فرینڈ سے پہلی ڈیٹ پر یہاں ملنے آتے۔
ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ ‘نرولا دہلی میں بڑے ہونے والے ہر بچے کے لیے ایک جذبے کی مانند تھا۔ مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ وہ کس طرح ہر بچے کو امتحان میں اچھے نمبروں یا سالگرہ پر انعام دیا کرتے تھے۔’
کچھ کے لیے یہ اس وقت کی یاد بھی تازہ کرتا ہے جب آپ فاسٹ فوڈ بغیر اپنی صحت کو نقصان پہنچنے کے ڈر سے کھا سکتے تھے۔
ایک خاتون نے کہا کہ ‘پہلے میں اپنے والدین کے ساتھ جایا کرتی تھی، پھر دوستوں کے ساتھ اور پھر بوائے فرینڈ کے ساتھ۔ ان کے پاس بہترین فلیورز ہوا کرتے تھے جو ہر موقع کے لیے بہترین ہوتے تھے۔’