لکھنو؛ اتتر پردیش کے سابق کابینہ وزیر اور بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) سے نکالے گئے نسیم الدین صدیقی نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس کر کے کہا کہ مجھے جھوٹے الزام لگا کر پارٹی سے نکالا گیا. مایاوتی نے مجھے کافی الٹا سیدھا کہا. مایاوتی نے کانشی رام کے بارے میں جو کہا میں نے اس کی مخالفت کی تھی. میں نے مایاوتی کو شکست کی وجوہات کے بارے میں بتایا تھا جس پر وہ ناراض ہو گئی تھیں.
یہی نہیں مایاوتی نے مجھ پیسے کا مطالبہ کیا. پارٹی کو پچاس کروڑ روپے کی ضرورت ہے. میں نے کہا کہ میں کہاں لاوں تو بولیں اپنی پراپرٹی فروخت کردو. میں نے کہا کہ اگر میں اپنی پراپرٹی فروخت بھی کر دوں گا تو پچاس کروڑ کا چوتھائی بھی ہو جائے تو بڑی بات ہے. میں نے یہ بھی کہا کہ نوٹبندي کے بعد اگر پراپرٹی بیچوں گا تو بھی کیش نہیں ملے گا. لیکن پارٹی مفاد کے لئے میں یہ کرنے کو بھی تیار ہوں. اس کے بعد میں نے اپنے دوستوں-رشتہ داروں سے کہا کہ کچھ کریں. پارٹی کے لوگوں سے کہا کہ میری پراپرٹی بكوا دو. جب تھوڑا پیسہ جمع ہو گیا تو میں نے بہن جی کو کہا کہ پیسے جمع ہو گیا ہے.
بہوجن سماج پارٹی سے کل نکالے گئے نسیم الدین صدیقی نے آج ایک منظم پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے کود پر عاید الزامات کی تردید تو کی ہی مایاوتی کے متعدد پول کھولے اور یہ وعدہ بھی کہ آئندہ وہ ایسے راز افشا کریں گے جو دنیا میں زلزلہ لادیں گے۔نسیم الدین صدیقی نے مایاوتی کے مقرب خاص پنڈت ستیش چند مشرا پر پارٹی کو توڑنے کا الزام لاگایا اور دریافت کیا کہ آخر مشرا جی کاے پاس اتنی دولت کہاں سے ائی۔نسیم الدین نے اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کےلئے صحافیوں کو کچھ آڈیو ٹیپ بھی سنائے جس میں مایاوتی نے کچھ امیدواروں سے پیسوں کے تقاضوں کی یاد دہانی بھی کرائی اور حساب کتاب لیکر آئیں۔
نسیم الدین نے مایاوتی کے متعلق کہا کہ وہ ایک غنڈوں کا گروہ بھی رکھتی ہیں جو میڈیا سے نمٹنے کا کام کرتا ہے،کسی کو مارنا،گاڑیاں جلانا اور سبق سکھانے کا کام لیا جاتا ہے۔ مایاوتی کی املاک اور انکے بہت سے رازوں پر سے پردہ اٹھانے سے بہرحال فوری طور سے گریز کیا مگر وعدہ کیا کہ وہ مستقبل میں ظاہر کردیں گے۔ نسیم الدین نے ایک واقعہ کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ بلسی جہاں سے مایاوتی کسی زمانے میں الیکشن لڑ رہی تھیں تو میری بیٹی بیمار ہوگئی اور انجام کار اسکا انتقال ہوگیا،مگر مایاوتی نے مجھے اپنے گھر نہیں جانے دیا اور میں نے اپنی مری ہوئی بیٹی کا منھ تک نہیں دیکھا۔
نسیم الدین صدیقی نے کہا کہ میں نے ٣٤ سال سے پارٹی کی خدمت کی اور اس دوران میں نے دیکھا کہ مایاوتی مسلمانوں کی عزت نہیں کرتی ہیں۔بلکہ مسلمانوں کو ہمیشہ برا بھلا کہا،
میں نے مایاوتی سے کہا کہ کانشی رام جی نے پارٹی کی بنیاد رکھی، جنہوں نے آپ کو سیاست سکھائی، ان کے بارے میں آپ نے غلط بولا. یہ کارکنوں کو اچھا نہیں لگا. اس پر مایاوتی نے کہا کہ میں تمہارے خلاف کارروائی کروں گی.
انتخابات میں شکست کے بارے میں پوچھا تو میں نے مایاوتی کو منشور جاری کرنے کی صلاح دی تھی.
ہار کی ایک وجہ میں نے انہیں بتائی تھی کہ آپ نے فورم سے کسی امیدوار کے لئے ووٹ نہیں مانگا
میں نے یہ بھی کہا کہ آپ لوگوں سے ملتی نہیں ہیں، آپ کو لوگوں سے ملنا چاہئے
آپ کی حفاظت کے میں نے ہمیشہ خیال رکھا، لیکن جو اب ہو رہا ہے وہ کبھی نہیں ہوا
آپ قلم، گھڑی تمام رکھوا لیتی ہیں، ستیش چندر مشرا کی گاڑی کے لئے فوری طور پر گیٹ کھلتا ہے،
تلاشی ہو رہی ہے تو سب کی ہونی چاہئے. مایاوتی رہنماؤں میں امتیاز کرتی ہیں
مجھ 50 کروڑ کی مانگ کی گئی
مایاوتی کے اب راجیہ سبھا کی ممبر پارلیمنٹ بننے کے بھی لالے ہیں
مایاوتی خود چاہتی ہیں کہ پارٹی ختم ہو جائے تاکہ کوئی اور پارٹی میں کھڑا نہ ہو پائے
مایاوتی نہیں چاہتیں کہ کوئی اور دلت چہرہ وزیراعلی بنے
مجھے غلطی بتائے بغیر سزا سنا دی گئی
مایاوتی نے میرا حق سنے بغیر ہی سزا سنا دی
میں نے کون سی پارٹی مخالف سرگرمیاں کیں بتاو تو صحیح
صدیقی نے بیان میں کہا ہے، ‘میں سمجھتا ہوں کہ اس اخراج سے میرے اور میرے خاندان کی اور میرے ساتھیوں کی بہوجن سماج پارٹی میں٣٥ سال کی خدمت کا صلہ دیا گیا ہے. میں نے اس مشن کے لئے اور مایاوتی کے لئے خاص طور پر اتنی قربانی دی ہے، جس کا میں شمار نہیں کر سکتا. ‘ نسیم الدین نے الزام لگایا، ‘مایاوتی، ان کے بھائی آنند کمار اور ستیش چندر مشرا کی طرف سے غیر قانونی طور پر، غیر اخلاقی طور پر اور انسانیت سے باہر کئی بار ایسی مانگیں کی گئیں، جو میرے بس میں نہیں تھیں. کئی بار مجھے ذہنی تشدد دی گئی، ٹارچر کیا گیا. جس کےپختہ ثبوت میرے پاس ہیں. ‘ نسیم الدین نے کہا، ‘٢٠٠٩ اور ٢٠١٤ کے لوک سبھا انتخابات اور ٢٠١٢ اور ٢٠١٧ کے اسمبلی انتخابات میں پارٹی کو مایاوتی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے کامیابی نہیں ملی. انہوں نے مسلمانوں پر غلط جھوٹے الزام لگائے. ‘ انہوں نے کہا، ‘٢٠١٧ کے انتخابات سے کافی پہلے سے میں نے پارٹی کے لئے جو کوششیں کی، اسی کا نتیجہ تھا کہ بی ایس پی کو ٢٢ فیصد سے زائد ووٹ ملے. نہیں تو صورت حال اور بدتر ہوتی. شکست کے بعد مايوتي نے مجھے بلایا اور اپر کاسٹ، بیک ورڈ کاسٹ کو برا بھلا کہنے کے ساتھ ہی خاص طور پر مسلمانوں کے لئے برا بھلا کہے، جس کی میں نے مخالفت کی تھی۔
دریں اثنا سیاسی مبصرین نے مایاوتی پر نسیم الدین کے الزامات کے متعلق کہا کہ بہوجن سماج پارٹی کے سینئر لیڈر نے پارٹی سے اپنے اخراج کے بعد ہی کیوں رازوں کو افشا کرنے کی ٹھانی؟یہ راز وہ بہت پہلے کھول سکتے تھے،مگر وہ بھی مایاتی کی ہاں میں ہاں اور انکے اقدامات میں پوری طرح سے شامل تھے۔ سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے نسیم الدین صدیقی پارٹی کے سب سے بڑے فنڈ ریزر تھے ۔انکی نگرانی میں ابتک پارلیمان اور اسمبلی کے متعدد الیکشن لڑے گئے مگر انہوں نے امیدواروں سے مانگی گئی رقم اور ٹکٹ فروخت ہونے کا ذکر تک نہیں کیا۔
بہرحال بہوجن سماج پارٹی کا خاتمہ اب قریب ہے اور یہ سمجھا جا رہا ہے کہ پارٹی کو ٹوٹنے سے اب کوئی روک نہیں سکے گا۔