اتر پردیش میں ان دنوں سیاسی ہلچل تیز ہو گئی ہے۔ پارٹیاں ایک دوسرے پر پوسٹروں کے ذریعہ حملہ آور ہو رہی ہیں۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ‘بٹیں گے تو کٹیں گے’ پر تو سیاسی ہنگامہ مچا ہوا ہے۔ اب اس کے جواب میں سماج وادی پارٹی کی طرف سے بھی راجدھانی لکھنؤ کی سڑکوں پر پوسٹر لگائے گئے ہیں۔ ان پوسٹروں میں لکھا ہے ‘جڑیں گے تو جیتیں گے’۔
یوپی کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے بھی بی جے پی کے پوسٹر والے نعرے کو لے کر سوشل میڈیا سائٹ پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ منفی نعرہ ان کی مایوسی اور ناکامی کی علامت ہے، جن کا نظریہ جیسا، ان کا نعرہ ویسا ہے۔ اس نعرہ نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کے جو گنتی کے 10 فیصد ووٹر بچے ہیں، اب وہ بھی کھسکنے کی دہلیز پر ہیں۔ اس لیے یہ ان کو ڈرا کر ایک کرنے کی کوشش میں لگ گئے ہیں لیکن ایسا کچھ ہونے والا نہیں ہے۔
اکھلیش یادو نے اپنے پوسٹ میں آگے لکھا کہ منفی نعرے کا اثر بھی ہوتا ہے۔ دراصل اس مایوس کن نعرہ کے آنے کے بعد ان کے بچے کھچے حامی یہ سوچ کر اور بھی مایوس ہیں کہ جنہیں ہم طاقتور سمجھ رہے تھے، وہ تو اقتدار میں رہ کر بھی کمزوری کی ہی باتیں کر رہے ہیں۔ جس مثالی ریاست کا تصور ہمارے ملک میں کیا جاتا ہے، اس کی بنیاد میں ‘بے خوف’ ہوتا ہے ‘خوف’ نہیں۔ یہ سچ ہے کہ ‘خوفزدہ’ ہی خوف بیچتا ہے کیونکہ جن کے پاس جو ہوگا، وہ وہی تو بیچیں گے۔
اکھلیش یادو نے اپنے پوسٹ کے ذریعہ کہا کہ ملک کی تاریخ میں یہ نعرہ ‘بدترین نعرہ’ کے طور پر درج ہوگا اور ان کے سیاسی زوال کے آخری باب کے طور پر آخری کیل ثابت ہوگا۔ ملک اور سماج کے مفاد میں انہیں اپنی منفی نظر اور نظریے کے ساتھ اپنے صلاح کار بھی بدل لینے چاہئیں۔ یہ ان کے لیے بہتر ثابت ہوگا۔ ایک اچھی صلاح یہ ہے کہ ‘پالیں تو اچھے خیال پالیں’ اور آستینوں کو کھلا رکھیں، ساتھ ہی بانہوں کو بھی، اسی میں ان کی بھلائی ہے۔