کھانے پینے والی اشیاء میں ملاوٹ عام چیز ہے، عوام الناس ملاوٹ شدہ اشیاء کھانے کے عادی ہو چکے ہیں لیکن اب حیران کن انکشاف ہوا ہے کہ مارکیٹ میں امپورٹ شدہ نقلی انڈے بیچے جا رہے ہیں اور یہ انڈے بالکل اصلی محسوس ہوتے ہیں جبکہ ان کو کھانے والوں کو ذرا شائبہ نہیں ہوتا کہ وہ کوئی نقلی انڈہ کھا رہے ہیں اور اس نقلی انڈے کی سپلائی ساؤتھ ایشیا اور خصوصاً پاکستان اور انڈیا میں جاری ہے اوریہ نقلی انڈے کھانے کی وجہ سے لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
مصنوعی انڈوں کے حوالے سے سڈنی یونیورسٹی کے ایک محقیق نے اپنے تحقیقی مقالہ میں لکھا ہے، جس کے مطابق 21 ویں صدی میں انسانوں میں اتنی صلاحیت آگئی ہے کہ اب انہوں نے قدرتی اشیا کی مصنوعی شکلیں بنانی شروع کر دی ہیں جس میں مصنوعی انڈے بھی شامل ہیں۔
تحقیق کے مطابق یہ انڈے شکل میں بالکل اصلی انڈوں کی طرح لگتے ہیں لیکن یہ مصنوعی طریقے سے فیکٹری میں مختلف کیمیکل کو ملا کر بنائے جاتے ہیں اور پھر مارکیٹوں میں بھیجے جاتے ہیں، جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہےکہ چینی انڈے ہیں جو چین میں بنائے جاتے ہیں۔
تحقیقی مقالے کے مطابق مصنوعی انڈوں کو بنانے کے لیے درکار مواد مارکیٹ میں سستے داموں دستیاب ہوتا ہے اور مصنوعی انڈوں کے چھلکوں کو بنانے کے لیے کیلشیئم کاربونیٹ، میگنیشیم کاربونیٹ، ٹرائی کیلشیئم فاسفیٹ، پروٹین، اولبومین اور لائسوزیم جیسے کیمیکل استعمال ہوتے ہیں (جو خطرناک ہیں)۔
ماہرین کے مطابق سفیدی بنانے کے لیے گلوبولین، اوگلائیکو پروٹین، سیسٹین اور اسی طرح دیگر کیمیکلز استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ انڈے کی زردی بنانے کے لیے سیرم البومین، لائیو ٹین اور دیگر مختلف کیمیلز استعمال ہوتے ہیں اور ان انڈوں کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے بینزوئک ایسڈ استعمال ہوتا ہے اور رنگت کے لیے خوراک کے مختلف رنگ استعمال کیے جاتے ہیں اور اس کو نرم کرنے کے لیے الم استعمال کیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پہلے سوڈیم الگینیٹ کا محلول بنایا جاتا ہے جس سے ایک شفاف سا لیکوئڈ بن جاتا ہے اور اس کے بعد اس میں سے تھوڑی سی سفیدی کو الگ کیا جاتا ہے اور اس میں لیموں والا رنگ ڈالا جاتا ہے تاکہ زردی کو علیحدہ کیا جاسکے اور پھر سفیدی اور زردی کو ملا دیا جاتا ہے اور بعد میں انہیں انڈے کی طرز کے خانوں میں رکھا جاتا ہے۔
دوسری جانب سندھ فوڈ اتھارٹی حکام نے بتایا ہےکہ مصنوعی انڈے صحت کے لئے مضر ہیں اور قبضے میں لیے گئے نمونے ٹیسٹ کے لئے بھجوا دیئے ہیں جبکہ نقلی انڈا دکھنے میں چمکدار جبکہ اصلی کھردرا ہوتا ہے اور نقلی انڈے کی زردی باآسانی مکس ہوجاتی ہے اور اصلی انڈے کی زردی اچھی طرح پھینٹنے پرہی مکس ہوتی ہے۔
ایس پی انویسٹی گیشن ساؤتھ کے مطابق انڈے کو ٹیسٹ کے لئے محکمہ صحت کو بھیج دیا ہے اور انڈوں کے35کارٹن سے بھرا ٹرک ضبط کرلیاہے جبکہ انڈے بنانے کے عمل اور اس میں صداقت سے متعلق تحقیقات جاری ہیں ۔
واضح رہے اصلی انڈوں میں ایک خاص قسم کی بُو ہوتی ہے جو نقلی انڈوں میں نہیں ہوتی جبکہ اصلی انڈے کو ہلائیں تو اس میں سے کوئی آواز سنائی نہیں دیتی اور نقلی انڈے سے ایسی آواز آتی ہے جیسے وہ اندر سے کھوکھلا ہو۔