سخت گیر ہندو گروپوں کا دعویٰ ہے کہ اجمیر میں معروف صوفی خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ بھی ہندوؤں کے مندر پر تعمیر کی گئی تھی۔ درگاہ کے منتظمین نے مذہبی جذبات مجروح کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
برصغیر کے معروف صوفی خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کے منتظمین اور خدام کی انجمنوں نے ہندوستان کی ان ہندو تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے، جنہوں نے معروف صوفی کے خلاف نہ صرف نازیبا باتیں کہیں بلکہ یہ دعویٰ بھی کیا ہے کا ان کا مزار شیو مندر توڑ کر بنایا گیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی افسوس ناک اور شرمناک بات ہے کہ ہندو تنظیم ‘ہندو شکتی دل’ کے ارکان نے معروف صوفی خواجہ معین الدین کے خلاف نفرت انگیز تقریریں کیں اور ان پر انتہائی قابل اعتراض نیز ہتک آمیز الزامات عائد کیے۔ پولیس حکام نے اس سلسلے میں ہندو گروپ کے خلاف اب تک دو ایف آر درج کی ہیں، تاہم اب تک کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔
معاملہ کیا ہے؟
ڈی ڈبلیو اردو سے ایک خاص بات چیت میں اجمیر درگاہ شریف کے سجادہ نشین اور چشتی فاؤنڈیشن کے چیرمین حاجی سید سلمان چشتی نے بتایا کہ اس سلسلے میں پولیس حکام سے شکایت کی گئی ہے اور ”مطالبہ کیا گیا ہے ایسی تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ مستقبل میں ایسی حرکت نہ دہرائی جاسکے۔”
چند روز قبل ہندو شکتی دل کے صدر سمرن گپتا نے اپنے دیگر حامیوں کے ساتھ مل کر اجمیر کی انتظامیہ کو ایک یاد داشت سونپی تھی اور کہا تھا کہ اجمیر کی درگاہ چونکہ ہندو مندر کو منہدم کر کے تعمیر کی گئی تھی، اس لیے اسے ہندوؤں کے حوالے کرنے کا عمل شروع کیا جائے۔ سید سلمان چشتی کا کہنا ہے کہ ”ایسے بیہودہ لوگوں کا بیک گراؤنڈ چیک کرنا چاہیے، جو ایسی حرکتیں کر رہے ہیں۔ یہ ملک کا ماحول خراب کرنے کی ایک کوشش ہے۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ سمرن گپتا اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ اجمیر آئے تھے اور مقامی حکام سے کہا کہ ”درگاہ شریف کا جنتی دروازہ در اصل ہندوؤں کے ایک شیو مندر کو منہدم کر کے تعمیر کیا گیا تھا۔”ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر صوفی خواجہ معین الدین چشتی کے خلاف ہتک آمیز اور نفرت انگیز باتیں بھی کہیں گئیں، تاہم مذہبی جذبات مجروح ہونے کے خدشے کے پیش نظر اسے ہوا نہیں دی گئی، کیونکہ اس سے مذہبی منافرت کے پھیلنے کا بھی اندیشہ تھا۔
اجمیر کے ایک مقامی صحافی رئیس احمد نے ڈی ڈبلیو اردو سے اس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ہندو شکتی دل نے مقامی انتظامیہ کو ایک تحریری درخواست سونپی ہے،
جس میں اجمیر کی درگاہ کو اس بنیاد پر ہندوؤں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ پہلے اس مقام پر ایک ”شیو مندر’ تھا۔ ان کا کہنا تھا، تاہم اس موقع پر ان لوگوں نے صوفی حضرت خواجہ معین الدین چشتی پر، ”بدکار ہونے کے ساتھ ہی دہشت گرد ہونے کا بھی الزام لگایا۔” ان کے بقول ان لوگوں نے ان کے خلاف نفرت انگیز تقریریں کرنے کے ساتھ ہی انتہائی قابل اعتراض نیز ہتک آمیز الزامات عائد کیے۔
کیا مزار ہندوؤں کے مندر پر تعمیر ہے؟
واضح رہے کہ ہندو شکتی دل اور ایسی دیگر سخت گیر ہندو تنظیموں کا دعوی ہے کہ اجمیر کی درگاہ ایک ہندو مندر منہدم کر کے تعمیر کی گئی تھی، اس لیے وہ اس مزار کو ہندوؤں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ حاجی سید سلمان چشتی نے بتایا کہ دو ماہ قبل بھی ‘مہارانا پرتاپ سینا’ نامی ایک ہندو تنظیم نے بھی ایسا ہی دعوی کیا تھا کہ اجمیر میں واقع خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ ”کوئی درگاہ نہیں بلکہ ایک ہندو مندر ہے۔” انہوں نے کہا کہ ایسے افراد کو ایسی مثالی سزا دینی چاہیے کہ دوسرے کسی شخص کو جرئت تک نہ ہو کہ وہ دوبارہ ایسا کرنے کی ہمت کرے۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔”
اطلاعات کے مطابق مہارانا پرتاپ سینا کے رہنما راج وردھن سنگھ پرمار نے راجستھان کے وزیر اعلی بھجن لال شرما کو ایک خط لکھا ہے اور اجمیر کی درگاہ کے معاملے کی ”تفتیش” کا مطالبہ کیا ہے۔ راج وردھن نے اپنی ایک پوسٹ میں کہا کہ اس حوالے سے ریاست کے تمام اضلاع میں بیداری مہم شروع کی گئی اور اس دوران عوام کی ایک بڑی تعداد نے ان کے موقف کی حمایت کی ہے، اس لیے ”جس طرح بابری مسجد کی کھدائی کر کے تفتیش کی گئی تھی، اجمیر کی درگاہ کی بھی تفتیش کی جانی چاہیے۔”
کارروائی نہ ہونے پر احتجاج کی دھمکی
خدام کی انجمن نے کہا کہ کئی روز گزرنے کے بعد ابھی تک اس سلسلے میں کسی کی گرفتاری نہیں ہوئی اور اگر اس میں ملوث افراد کو گرفتار نہیں کیا گیا تو اس کے خلاف سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا جائے گا۔ اجمیر درگاہ کے ایک وفد نے منگل کے روز ریاست راجستھان کے اقلیتی کمیشن کے چیرمین رفیق خان سے ملاقات بھی کی تھی۔ اطلاعات کے مطابق کمیشن نے بعد میں ریاست کے حکام سے ملاقات کی تاکہ اس معاملے میں کارروائی کرنے پر زور دیا۔
انجمن کے صدر سرور چشتی نے کہا کہ اس وقت ملک میں افواہیں پھیلانے میں کئی گنا اضافہ ہو رہا ہے اور ”تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔” انہوں نے کہا: ”حیران کن طور پر دستاویزی اور الیکٹرانک شواہد کے ساتھ ہماری تحریری شکایت، اور متعدد ایف آئی آر کے باوجود، نفرت انگیز تقاریر کو روکنے اور سماجی ہم آہنگی نیز امن کو برقرار رکھنے کے لیے، پولیس نے ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا ہے۔”