الہ آباد: یو پی میں گئوکشی کے الزام میں گرفتار افراد کے خلاف بڑے پیمانے پرنیشنل سکیورٹی ایکٹ (این ایس اے) لگایا جا رہا ہے۔ گئوکشی کے معاملے میں این ایس اے لگائے جانے پر قانون دانوں اور انسانی حقوق کے کارکنان نے یوگی حکومت پر کئی سنگین سوالات کھڑے کئے ہیں۔
واضح رہے کہ رواں سال ریاست میں گئوکشی کے الزام میں گرفتار نصف سے زیادہ افراد پر نیشنل سکیورٹی ایکٹ لگایا جا چکا ہے۔ این ایس اے کا شکار بننے والے بیشتر افراد کا تعلق اقلیتی طبقے سے ہے۔
قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گئوکشی کے معاملے میں این ایس اے لگانا سرا سر غیر آئینی عمل ہے۔ یو پی میں گئوکشی کے الزام میں گرفتار افرادکے خلاف بڑے پیمانے پر این ایس اے لگائے جانے کے معاملے نے مسلم سماج کو سخت تشویش میں ڈال دیا ہے۔ ریاست میں سب سے زیادہ معاملے مغربی یو پی میں درج کئے گئے ہیں۔
معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ رواں سال اب تک گئوکشی کے ۱۳۹ معاملے درج کئے گئے ہیں۔ ان میں سے ۷۵؍ معاملوں میں ماخوذ افراد پر این ایس اے لگایا جا چکا ہے۔ گئوکشی کے الزام میں گرفتارافراد کے خلاف این ایس لگانے پر قانون دانوں میں سخت تشویش پائی جا رہی ہے۔
الہ آباد ہائی کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ سید فرمان احمد نقوی اس صورتحال کو نہایت تشویشناک مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نیشنل سکیورٹی ایکٹ بنانے کا مقصد قومی سلامتی کو یقینی بنانا اوراس کو نقصان پہچانے والے عناصر کے خلاف کارروائی کرنا تھا، لیکن یو گی حکومت سماجی جرائم میں ملوث افراد کے خلاف این ایس اے جیسا سخت قانون استعمال کر رہی ہے۔ فرمان احمد نقوی کا مزید کہنا ہے کہ گئوکشی کے خلاف سخت قانون ملک میں پہلے سے ہی موجود ہے۔
یوگی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ریاست بھر میں گئو شالائیں قائم کی گئی ہیں اور گایوں کی دیکھ بھال اور ان کے تحفظ کے لئے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں، لیکن گئوکشی کے معاملے میں زیادہ تر اقلیتی فرقے کے افراد کوہی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یو پی میں یو گی حکومت نے ریاست کے بیشتر سلاٹر ہاؤسوں پر پابندی لگا دی ہے۔
گذشتہ چند مہینوں کے دوران گئوکشی کے الزام میں گرفتاریوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ گئوکشی کے الزام میں گرفتار ہونے والوں کاتعلق اقلیتی فرقے سے ہے اور ان پر بے دریغ این ایس اے لگایا جا رہا ہے۔ ایسی صورت میں اقلیتی فرق کو نہ صرف سخت مشکلات کا سا منا ہے بلکہ ان کے بنیادی حقوق کی پامالی بھی ہو رہی ہے۔