امریکی صدر باراک اوباما اور اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے درمیان بدھ کے روز نیویارک میں ملاقات ہوگی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے ضمن میں ہونے والی اس ملاقات کو وہائٹ ہاؤس نے اوباما کی کولمبیا، نائیجیریا اور عراق کے سربراہوں سے دو طرفہ ملاقاتوں میں شامل نہیں کیا ہے۔ تاہم مبصرین کے مطابق یہ آئندہ دس برسوں کے دوران اسرائیل کے لیے 38 ارب ڈالر کی امداد کے معاہدے پر صدر اوباما کے دستخط کے بعد ہونے والی یہ ملاقات خصوصی اہمیت کی حامل ہو گی۔ امریکا کی تاریخ میں کسی بھی حلیف ملک کو دی جانے والی یہ سب سے بڑی فوجی امداد ہے۔
“العربیہ” سے گفتگو کرتے ہوئے ذرائع نے بتایا کہ صدر اوباما کے صدارت سنبھالنے کے ساتھ ہی جن معاملات نے ان کو مصروف کر دیا ان میں مسئلہ فلسطین کا حل تلاش کرنا شامل ہے۔ انہوں نے ابتدا میں ہی اس مسئلے کے لیے ایک خصوصی ایلچی مقرر کر دیا جو کہ سینیٹر جارج مچل تھے۔ اوباما مذاکراتی فریم ورک کے نتیجے میں ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام اور اسرائیل کے امن کو یقینی بنانے کی امید لے کر بیٹھے ہوئے تھے۔ تاہم اسرائیل کی ہٹ دھرمی کے باعث ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ اوباما اور ان کی انتظامیہ نے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے سلسلے میں کسی رغبت کا اظہار نہیں کیا جیسا کہ سابق صدر جارج بش سینئر نے اپنے وزیر خارجہ جیمس بیکر کے ذریعے اسرائیل پر دباؤ ڈالا تھا۔
نیتن یاہو کی جانب سے یہودی بستیوں کی آبادکاری کو روکنے کو مسترد کیے جانے کے بعد امریکی انتظامیہ محض خاموش تماشائی بن گئی۔ امریکی جریدے “نیو یارک ٹائمز” کے مطابق مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں بستیوں کی تعمیر میں صدر بش کے دور کے مقابلے میں صدر اوباما کے دور میں کہیں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اوباما کے وہائٹ ہاؤس پہنچنے کے بعد سے اب تک اسرائیل نے یہودی بستیوں میں 12288 یونٹوں کی تعمیر کی۔
ضایع شدہ وقت کی واپسی کا موقع
بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ ملاقات ضایع شدہ وقت کی واپسی کا ایک موقع ہے۔ صدر اوباما کے خیال میں سیاسی سرمایہ کاری اور غیر محدود فوجی سپورٹ پر سودے بازی کا وقت آگیا ہے جس میں اسرائیل کو مفاہمتی فریم ورک پر آمادہ ہونے پر مجبور کیا جائے۔ اس طرح آئندہ برس 17 جنوری کو وہائٹ ہاؤس سے ان کے کوچ کرجانے سے پہلے اگر کامیابی حاصل نہ بھی ہوسکی تو آئندہ انتظامیہ کے لیے پہلی اینٹ تو رکھ دی جائے۔
اس وقت تمام تر نظریں صدر اوباما کے منگل کی صبح جنرل اسمبلی میں ہونے والے خطاب پر مرکوز ہیں۔ آیا کہ وہ واقعتا عرب اسرائیلی تنازع کی پیچیدگیوں کے باوجود اس کے خاتمے کے لیے اپنے وژن پر بات کریں گے۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس کے خطاب میں اوباما نے مسئلہ فلسطین کے ذکر کو نظرانداز کر دیا تھا۔
نیتن یاہو کو یقین دلانا
مبصرین کے نزدیک یہ معاملہ دو اہم عوامل پر انحصار کر رہا ہے۔ ایک تو اسرائیلی ردعمل اور نیتنیاہو کو یہ یقین دلانا کہ وقت طویل مدت کے لیے اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے جیسا کہ واشنگٹن میں عبرانی ریاست کے خیرخواہ بتا رہے ہیں۔ دوسرا امریکی انتظامیہ کا دباؤ کے لیے ٹرمپ کارڈ استعمال کرنے کا ارادہ.. تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر اوباما کی انتظامیہ عام طور پر امید اور آرزو کی حکمت عملی کا سہارا لیتی ہے بالخصوص فلسطین اور شام کے معاملات میں۔ لہذا موجودہ حالات میں امریکی انتظامیہ کے سامنے مایوسی کے گہرے بادلوں ہی منڈلا رہے ہیں۔