حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے یوم النکبہ کے موقع پر ٹرمپ کی جانب سے سفارتخانے کی منتقلی کی شیطنت سمیت کا علاقائی صورتحال پر اہم خطاب کیا۔
ٹرمپ کا فیصلہ اور ایران ایٹمی معاہدہ:
اس موضوع پر جو کچھ بیان کرونگا وہ ہمارے خطے اور لبنانی عوام کے لئے عبرت ہے لیکن میں صرف اس پر آپ کی توجہ مرکوز کرونگا جو سیاسی ثقافت اور بیداری سے بھی عبارت ہے۔
الف : یہ ٹرمپ کا فیصلہ نہیں بلکہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارمنٹ کا فیصلہ ہے ،اس فیصلے میں کسی قسم کا کوئی انسانی اور اخلاقی پہلو نہیں آج فلسطینی مسلسل احتجاج کررہے ہیں گذشتہ چند دنوں میں سینکڑوں مارے گئے ہیں لیکن بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے کو لیکر نہ تو کوئی اخلاقی پہلو سامنے آتا ہے اور نہ ہی انسانی پہلو ۔
ب: عالمی قوانین اور معاہدوں کی پاسداری ۔وہ خود اپنے فیصلوں اور معاہدوں کی کوئی اہمیت نہیں رکھتے نہ اخلاقی ،نہ قانونی ۔ دنیا میں کوئی بھی امریکی معاہدوں اور وعدوں پر یقین ہی نہیں کرسکتا کیونکہ ان کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں یہ انتہائی حماقت ہوگی کہ کوئی امریکہ پر بھروسہ کرے ،یہ امریکی ادارہ کسی بھی چیز کا نہ تو پابند ہے اورنہ احترام رکھتا ہے ۔
ج: امریکہ نے اپنے اتحادیوں سے بھی پوچھنے کی زحمت نہیں کی جو نیٹواور ویٹو میں اس کے اتحادی ہیں، یہ وہ عبرتیں ہیں جس کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے لئے اور خطے کے لئے یہ چیز اہمیت رکھتی ہے ،جو بھی اپنے پلان اور فیصلے امریکہ پر بھروسے سے کرتا ہے وہ سوچ لےجو امریکہ اپنے اتحادیوں کے مفادات کا خیال نہیں رکھتا وہ کیا عربوں کے مفادات کی حفاظت کرے گا؟
شام پر اسرائیلی جارحیت اور مقاومت کا جواب:
امریکہ کے ساتھ مذاکرات اور معاہدے کے ان نتائج نے ہم پر مزید واضح کردیا کہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا راستہ درست نہیں۔
جولان میں ہونے والا تصادم، جولان حملے میں اسرائیل کےزیادہ تر میزائلوں کا دفاع کیا گیا جبکہ جوابی کاروائی میں طبریا سمیت اسرائیل کے متعدد علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیل اپنی عادات کے مطابق اپنے نقصانات چھپارہا ہے اسرائیل پر 55میزائل داغے گئے جن کے نقصانات کی وہ پردہ پوشی کررہا ہے غیر معمولی میزائل حملہ شام پر اسرائیلی جارحیت کےتسلسل کا جواب دینے کا ایک راستہ ہے یہ میزائل حملہ اسرائیل کو پیغام دے رہا ہے کہ اب شام پر اس طرح جارحیت جاری رکھی نہیں جاسکتی اور اس کا جواب اسے مل کر رہے گا ۔ اسرائیل کے ساتھ تصادم کو میزائلوں کی جوابی کاروائی نے ایک نئے مرحلے میں داخل کردیا ہے میں یہ انکشاف کردوں کی عالمی ذرائع کے ذریعے اسرائیل کو پیغام دیا گیا تھا کہ اگر اس نے شام میں ریڈ لائنز عبور کرنے کی کوشش کی تو اگلا حملہ اسرائیل کے قلب پر کیا جائے گا اس واقعے اور تجربے نے ثابت کردیا کہ اسرائیلی کسی بھی لحاظ سے اس قسم کے حملے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یہ حملے کے بعد کی صورتحال واضح کررہی ہے اور ان کی قیادت عوام سے جھوٹ بول رہی ہے وہ جو کہہ رہے ہیں کہ ہم نے شام میں ایران کے تمام اڈوں کو تباہ کردیا سفید جھوٹ ہے ،جس کہ بعد خود ان کے بعض ذمہ داروں نے بھی کہنا شروع کردیا ہے ۔ اس واقعے میں خلیجی{عرب} شرم آور کردار بھی قابل توجہ ہے ۔۔جو کچھ بحرینی وزیر خاجہ نے کہا وہ لفظ شرمندگی سے بھی زیادہ قباحت ۔کیا کہا جائے اس انتہائی گھٹیا اور پست حرکت کے بارے میں یہ انتہائی درجے کی غلامانہ سوچ اور انتہائی حماقت ہے ۔ ہم شام میں ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں مزاحمت ایک نیا مرحلے کا سامنا کررہی ہے اس حالیہ حملے میں اسرائیلی ہیبت اور غرور کو توڑ کر رکھ دیا ہے ۔
مسئلہ فلسطین اور خلیجی بادشاہوں کی خیانتیں:
فلسطین کا مسئلہ اور نکبہ؛ ستر سال قبل شروع ہونے والا یہ مسئلہ آج تک دنیا کی تاریخ ،عرب حکمرانوں کی پیشانی پر ایک ننگ و عار کی شکل میں موجود ہے یہ جو کہا جاتا ہے کہ اس صدی کی سب سے بڑی ڈیل اور کہا جارہا ہے کہ اس ڈیل کے بارے میں ٹرمپ کچھ ہفتوں میں اعلان کرنےجارہا ہے وہ یہ کہنے والاہے کہ مسلمانوں ،عربوں یہ تمہیں قبول ہے تو ٹھیک ورنہ جاو ۔۔تم قبول کرو تو اچھی بات نہ کرو تو تمہیں سزا دی جائے گی ۔یہ ڈیل کیا ہے۔
الف: ،قدس کو بھول جاو ۔۔اب قدس کی بات نہیں ہوگی
ب:فلسطینیوں کی واپسی کو بھول جاو ۔تمام عرب اور مسلم ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنائیں ورنہ ان کیخلاف پابندیاں لگے گی ایرا ن پر دباو کا آخری مرحلہ ایٹمی معاہدے کے خاتمےسے شروع ہوا ہے ،ایران پر دباو کا اصل مسئلہ اس کا میزائل پروگرام نہیں بلکہ فلسطینی مزاحمتی تحریک کی مدد کرنا ہے۔ اس صدی کی سب سے بڑی ڈیل کے لئے ضروری ہے کہ شام پر دباو بڑھتا رہے اور لبنان پر جنگ کے سائے منڈلاتے رہیں غزہ کی غذائی حالت محاصرے کے سبب یمنی حالت کے قریب ہے ۔ ان حالات میں عرب خلیجی ممالک کی جانب سے اس ڈیل کے ساتھ تعاون کرنا ہے اور اس کا خطرناک حصہ مذہبی طور پر فراہم کیا جانا والا شیلٹر ہے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنانے میں مذہب کو ہتھیار بناکر استعمال کرنے کی خلیجی بادشاہتوں کی کوشش اس کا سب سے خطرناک حصہ ہے ۔ جب یہ کہا جائےکہ قرآن میں اسرائیل کا لفظ درجنوں بار آیا ہے لیکن ایک بار بھی فلسطین کا لفظ نہیں آیا تو اب کیا کہا جائے گا سعودی عرب اس صدی کی سب بڑی ڈیل میں اسرائیل کی مدد کے لئے مذہب کو ہتھیار بناکر پیش کررہا ہے تاکہ فلسطینوں کے مقابل اسرائیلوں کا اس سرزمین پر حق ثابت کیا جاسکے اس صدی کی ڈیل کو صرف ایک چیز روک سکتی ہے اور وہ یہ کہ پوری دنیا کھڑی ہوجائے تو اس صدی کی ڈیل کو ناکام بنا سکتی ہے اور وہ چیز ’’فلسطینیوں کو چاہیے کہ وہ اس معاہدے پر دستخط ہی نہ کریں‘‘ اس مرحلے سے گزرنے کے لئے ہمیں مزید استقامت اور ثابت قدمی دکھانی ہے خواہ ماردئیے جائیں جیلوں میں جانا پڑے بھوکا رہنا پڑے ،مہاجر بننا پڑے ۔ تمام مزاحمتی گروہوں کو چاہیے کہ جیسے بھی حالات ہوں وہ استقامت دکھائیں اس پلان کے تین اضلاع ہیں ٹرمپ ،نیتن یاہو،اورمحمد بن سلمان اور کوئی ایک بھی سقوط کر جائے تو پورا پلان نابود ہوجائے گا ان تینوں اضلاع کے تمام پلانز ناکام ہوچکے ہیں جو کچھ اسرائیلی شور مچارہے ہیں وہ صرف خالی ڈھول پیٹنا ہے بزدل شور شرابے سے استفادہ کرتا ہے ،(یعنی شور شرابے سے اپنا مورال بڑھانے کی کوشش کرتاہے)اور جب اس کے قریب ہو جاو تو مرجاتا ہے اس وقت اسرائیل کی صورتحال ایسی ہے۔
شہید مصطفی بدرالدین کو خراج تحسین:
حزب اللہ عسکری قائد شہید مصطفی بدرالدین کی دوسری برسی کے موقع پراللہ کے رسول کی دو صفتیں اللہ نے بیان کیں اشدا اور رحما ۔ دشمن کے مقابلے میں ہمیشہ سخت موقف رکھتے تھے ،قابضوں غاصبوں اور دشمنوں کے ساتھ شدت کے ساتھ پیش آنا ضروری ہے اور سید مصطفی بھی اسی صفت کے پیروتھے لیکن دوسری جانب سب جانتے ہیں کہ وہ انتہائی نرم دل تھے انتہائی ،جذبہ والے شخص تھے ،انتہائی محبت کے ساتھ پیش آتے تھے، سید مصطفی سے محبت کے ساتھ ہر چیز لی جاسکتی تھی لیکن دشمن کے مقابلے میں نہ اس میں خوف تھا ،نہ کمزوری اور نہ ہی کسی قسم کی کنفیوژن، عماد مغنیہ کی شہادت کے بعد سید مصطفی پرانتہائی اہم اور حساس ذمہ داریاں عائد ہوئیں تھیں فلسطینی ایشو، فلسطینی مزاحمتی گروہ کی مدد کرنے سے لیکر عراق اور شام کا میدان۔ ہم عراق کے موضوع پر عام طور پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتے لیکن عماد مغنیہ کی شہادت کے بعد یہ ذمہ داری شہید مصطفی کی تھی ،یہاں تک کہ داعش کیخلاف آپرریشنز سے لیکر شام میں آپریشن میں شامل ہونے تک ۔۔۔ وہ ان تمام میدانوں میں ہمیشہ کامیابی کے ساتھ دیکھائی دئیے ،ہم نہیں کہتے کہ وہ تنہاہی اس کے فاتح تھے لیکن وہ اس مجموعے کا حصہ تھے ۔ خاص طور پر جب ہم عسکری آپریشن کی بات کرتے ہیں تو وہ سرفہرست دیکھائی دیتے ہیں ،اسرائیلی جاسوس نیٹ ورک کو پکڑنے میں کامیاب رہے ،دہشتگردوں کا پچھا کرنے اور بارود سے بھری گاڑیوں کو پکڑنے اور خفیہ آپریشن میں وہ ہمیشہ سرفہرست تھے عراق سے امریکی افواج کو نکالنے والی مقاومت سے لیکر داعش کیخلاف آپریشن تک ان کا کردار دیکھائی دیتا ہے۔
انہوں نے اپنی پوری زندگی اسی طرح گزاری۔ شام مقاومت کا ستون ہے۔ شہید سید مصطفی اور ان جیسوں کی شام میں موجودگی کا ایک بڑا سبب شام کیخلاف ہونے والی سازش کا ادراک تھا ۔ ان کےپاک خون نے حلب سے لیکر دیگر مقامات پر کامیابیوں میں اہم کردار ادا کیا، یہاں تک یرموک سے لیرک حجر لاسود کے آپریشن تک ان تنخواہ دارہشتگردوں کیخلاف آپریشن میں جب ہم کامیابی حاصل کررہے ہیں اور آج ہم شہید سید مصطفی بدرالدین کی برسی منارہے ہیں میں ان سے کہونگا میرے بھائی میرے عزیز اے شہید جیسا کہ آپ کہتے تھے یا شہید یا پھر کامیاب لوٹ آو ۔۔تو آج آپ کامیاب لوٹے ہو ۔۔ شام میں کامیابی کے پچھے شام کی عوام اور فوج کا مرکزی کردار ہے لیکن ان کے اتحادیوں کا بھی اہم کردار ہے پہلا موضوع خطے میں امریکی مداخلتیں
تقریر کے آخر ی حصے میں سید حسن نصر اللہ نے لبنان کے داخلی مسائل اور الیکشن کے بعد حکومت سازی کے حوالے سے گفتگو ارشاد فرمائی۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ