کورونا وائرس کی دیگر اقسام کے مقابلے میں اومیکرون کو زیادہ متعدی خیال کیا جاتا ہے۔اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ سابقہ اقسام کے مقابلے میں وہ پلاسٹک اور جلد پر زیادہ دیر تک بچنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔یہ بات جاپان میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
اس تحقیق میں لیبارٹری ٹیسٹوں میں دریافت کیا گیا کہ اومیکرون قسم پلاسٹک کی سطح اور انسانی جلد پر دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ وقت تک زندہ رہ سکتی ہے۔تحقیق کے مطابق اس قسم کا بہتر ماحولیاتی اسستحکام اس کے متعدی ہونے کی صلاحیت کو برقررا رکھتا ہے اور اسی کے نتیجے میں اومیکرون کو ڈیلٹا کی جگہ لینے میں مدد ملی اور وہ برق رفتاری سے پھیل گئی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ پلاسٹک کی سطح پر کورونا وائرس کی اصل قسم ایلفا، گیما اور ڈیلٹا کے زندہ رہنے کا اوسط وقت بالترتیب 56 گھنٹے، 191.3 گھنٹے، 156.6 گھنٹے، 59.3 گھنٹے اور 114 گھنٹے ہے۔
اس کے مقابلے میں اومیکرون کا وقت 193.5 گھنٹے دریافت ہوا۔
جلد کے نمونوں میں وائرس کی اوریجنل قسم کے زندہ رہنے کا اوسط وقت 8.6 گھنٹے تھا جبکہ ایلفا کا 19.6 گھنٹے، بیٹا کا 19.1 گھنٹے، گیما کا 11 گھنٹے، ڈیلٹا کا 16.8 گھنٹے اور اومیکرون کا 21.1 گھنٹے تھا۔
مگر تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ وائرس کی تمام اقسام الکحل ملے ہینڈ سینیٹائزر کے استعمال سے 15 سیکنڈ میں مکمل طور پر ناکارہ ہوجاتی ہیں۔
محققین نے کہا کہ اس کو دیکھتے ہوئے ہاتھوں کی صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہیے جیسا عالمی ادارہ صحت نے بھی مشورہ دیا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور bioRxiv میں جاری کیے گئے۔
اس سے قبل طبی جریدے جرنل کلینیکل انفیکشیز ڈیزیز میں شائع تحقیق میں بتایا تھا کہ کورونا وائرس انسانی جلد پر 9 گھنٹے تک زندہ رہ سکتا ہے، اس کے مقابلے میں فلو کا باعث بننے والا وائرس انسانی جلد پر 2 گھنٹے تک ہی رہتا ہے۔
خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ ہاتھوں کی صفائی یا ہینڈ سینی ٹائزر سے یہ دونوں وائرس فوری طور پر ناکارہ ہوجاتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق یہ وائرس براہ راست رابطے پر زیادہ پھیل سکتا ہے کیونکہ یہ فلو وائرس کے مقابلے میں جلد پر زیادہ مستحکم رہتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس دریافت سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ ہاتھوں کی مناسب صفائی اس وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اہم ہے۔
یہ وائرس نظام تنفس کو متاثر کرتا ہے اور ہوا میں موجود ذرات سے پھیلتا ہے جو کسی متاثرہ فرد کی کھانسی یا چھینک سے خارج ہوتے ہیں جو قریب موجود انسان کی ناک یا منہ پر گرتے یا سانس لینے کے دوران اندر چلے جاتے ہیں۔
مگر کسی میں اس سے متاثر ہونے کا خطرہ اس وقت بھی ہوتا ہے جب وہ کسی ایسی چیز کی سطح کو چھوئے جس پر یہ وائرل ذرات موجود ہوں اور اس کے بعد اپنے منہ، ناک یا آنکھوں کو چھوئیں۔