14جولائی کو سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ نے اشتعال انگیز تقریرمیں مظاہرین کو’رضاکار‘ کہا تھا۔
اس لفظ کو بنگلادیشی غداری کے مترادف سمجھتے ہیں اور یہ لفظ ان کے لیے استعمال کیا جاتاہے جنہوں نے 1971 میں پاک فوج کے ساتھ تعاون کیا، 50 سال قبل شیخ مجیب نے ایک جماعتی حکومت قائم کی، بیٹی نے وہی غلطی دہرائی۔
مظاہروں کا آغاز جولائی میں طالب علموں کی جانب سے سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم کے خاتمے کا مطالبے کے لیے ہوا تھا۔
1971 میں فوجیوں کے لیے ان کی قربانیوں کو تسلیم کرنے کے لیے ملازمتوں میں کوٹہ رکھا گیا، اس میں کئی بار ترمیم کی گئی جس کے نتیجے میں سول سروس کی 30 فیصد ملازمتیں ان فوجیوں کے بچوں اور پوتے پوتیوں کے لیے مختص کی گئیں، مزید 26 فیصد خواتین، پسماندہ اضلاع کے لوگوں، مقامی کمیونٹیز اور معذور افراد کے لیے مختص ہیں جب کہ صرف 44 فیصد ملازمتیں اوپن میرٹ پر تھیں اور 30لاکھ بنگلا دیشی نوجوان بیروزگار ہیں۔
کوٹہ سسٹم نے بے اطمینانی اور مایوسی کو جنم دیا، مظاہرین نے پسماندہ اور کمزور طبقوں کے لیے مختص کوٹے کے خاتمے کا مطالبہ نہیں کیا،طلبہ کا اعتراض تھاکہ’ فریڈم فائٹرز‘ کی اولاد کیلئے کوٹہ غیر منصفانہ ہے اور اسے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
ان کی آبادی مجموعی آبادی کے ایک فیصد سے بھی کم ہے، سول سروس کی ایک تہائی ملازمتیں ان لوگوں کیلئے مختص کی گئی، اس پر 2013 اور 2018 میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے ۔
حکومت نے کوٹہ ختم کرنے کا اعلان کیا تاہم کامیابی اس وقت ناکامی میں بدل گئی جب 5 جون 2024 کو ہائیکورٹ نے حکومتی حکم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے خارج کردیا عدالتی فیصلے نے طلبہ برادری کے ردعمل کو اکسایا جس نے ملک کو جام کردیا۔