اسرائیل نے امریکا کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے تہران پر حملے کی تیاری کا حکم صادر کردیا ہے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘اے پی’ کے مطابق ایران پر حملے سے متعلق بیان اسرائیل کی فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایویو کوہاوی نے دیا۔
انہوں نے کہا کہ واشنگٹن جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے تہران پر جس قدر بھی پابندی عائد کردے لیکن ایران پر آئندہ برسوں میں ممکنہ حملے کی تیاری کا حکم دے دیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے سربراہ کی دھمکی کے جواب میں ایران نے کہا ہے کہ وہ امریکی صدر جو بائیڈن کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر جواب دیں گے۔
خیال رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کو منسوخ کردیا تھا اور تہران پر متعدد اقتصادی پابندیوں عائد کردی تھیں۔
نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے خواہش مند ہیں۔
جس پر اسرائیل نے معاہدے کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ایران کو جوہری ہتھیار تیار کرنے سے روکنے کے لیے خاطر خواہ حفاظتی اقدامات شامل نہیں ہیں۔
اسرائیل نے 2018 میں ٹرمپ انتظامیہ کے معاہدے سے دستبرداری کا خیر مقدم کیا تھا۔
انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز سے خطاب میں اسرائیلی فوج کے سربراہ نے کہا کہ کچھ بہتری کے باوجود اس معاہدے میں واپسی ‘عملی طور پر نقصان دہ ہے اور یہ حکمت عملی سے بھی مناسب نہیں ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ایران کو جوہری پروگرام کے ساتھ آگے بڑھنے کی اجازت دینا ‘ایک ناقابل قبول خطرہ ہوگا اور خطے میں جوہری پھیلاؤ کا باعث بنے گا’۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے فوج کو موجودہ منصوبوں کے علاوہ متعدد آپریشنل منصوبے تیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ان منصوبوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں اور آنے والے سال کے دوران ان کی ترقی کریں گے۔
اسرائیلی فوج کے سربراہ نے کہا کہ جو لوگ ان منصوبوں کو انجام دینے کا فیصلہ کرتے ہیں یقیناً وہ سیاسی رہنما ہیں لیکن ایسے منصوبوں کو تیار رکھنا ہوگا۔
خیال رہے کہ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
ایران نے اپنی فوجی مشقوں میں بھی اضافہ کردیا ہے جس میں خلیج عمان میں رواں ماہ بحری مشق کے ایک حصے کے طور پر کروز میزائل فائر کرنا شامل ہے۔
8 مئی 2018 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خطرناک ملک قرار دیتے ہوئے چین، روس، برطانیہ، جرمنی سمیت عالمی طاقتوں کے ہمراہ سابق صدر براک اوباما کی جانب سے کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔
ایران نے بھی اس معاہدے پر دستخط کیے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ ایران بلیسٹک میزائل بنانے کے تمام پروگرام بند کردے گا اور اس معاہدے کے متبادل کے طور پر ایران پر لگائی گئی پابندیاں اٹھا لی جائیں گی اور اسے امداد کے لیے اربوں روپے حاصل ہوسکیں گے۔
3 جنوری 2020 کو بغداد میں امریکی ڈرون حملے میں قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد دونوں ممالک میں غیرمعمولی کشیدگی بڑھ گئی تھی۔
6 جنوری کو ایران نے امریکی حملے میں قدس فورس کے سربراہ کی ہلاکت کے بعد عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 میں کیے گئے جوہری معاہدے سے مکمل طور پر دستبرداری کا اعلان کردیا تھا۔