کابل، 13 اگست (یوا ین آئی) افغانستان میں طالبان اپنی زبردست پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے افغانستان کے مزید 3 صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے کے ساتھ ملک کے 34 میں سے 18 صوبائی دارالحکومتوں کا کنٹرول حاصل کرچکے ہیں۔
جن میں آج قندھار، ہرات اور لشکر گاہ پر قبضہ بھی شامل ہے طالبان نے تیزی سے حملے کرتے ہوئے افغانستان کے مزید 3 صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرکے ملک کے جنوبی حصے پر مکمل قبضہ کرلیا اور اب رفتہ رفتہ ان کی پیش قدمی کابل کی جانب جاری ہے۔حالیہ دنوں میں عسکریت پسند افغانستان کے 34 میں سے 18 صوبائی دارالحکومتوں کا کنٹرول حاصل کرچکے ہیں جس میں ملک کا دوسرا اور تیسرا بڑا شہر قندھار اور ہرات شامل ہے۔
امریکی خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قندھار اور ہرات پر قبضہ طالبان کے لئے اب تک کا سب سے بڑا انعام ہے یوں وہ امریکہ کے مکمل انخلا سے چند ہفتے قبل طالبان، افغانستان کے 2 تہائی سے زائد حصے پر قابض ہوچکے ہیں۔دوسری جانب غزنی پر قبضے نے افغان دارالحکومت کو ملک کے جنوبی صوبوں سے منسلک کرنے والی انتہائی اہم شاہراہ کو منقطع کردیا، جو امریکی اور نیٹو فوجیوں کے حملوں سے طالبان حکومت کو بے دخل کرنے کے 20 سال بعد اسی طرح اپنے آپ کو بھی حملے کی زد میں دیکھ رہے ہیں۔
ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کے مغربی صوبے غور میں صوبائی کونسل کے سربراہ فضل حق احسان نے کہا کہ طالبان صوبائی دارالحکومت فیروز کوہ میں داخل ہوگئے اور شہر میں لڑائی جاری ہے۔ جمعرات کی رات گئے افغان عہدیدار نے بتایا تھا کہ طالبان نے صوبہ بادغیس کا مغربی حصہ بھی بڑی حد تک اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔
دوسری طرف طالبان کی ایک ٹوئٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ عسکریت پسندوں نے صوبائی گورنر کی کرسی، پولیس ہیڈکوارٹرز اور دیگر اہم سرکاری عمارات پر قبضہ کرلیا۔اگرچہ کابل ابھی تک براہ راست خطرے میں نہیں ہے لیکن نقصانات اور دوسری جگہوں پر لڑائیوں نے دوبارہ ابھرنے والے طالبان کی گرفت کو مزید سخت کر دیا ہے جو اندازے کے مطابق ملک کے دو تہائی حصے پر قابض ہیں اور کئی دوسرے صوبائی دارالحکومتوں میں حکومتی فورسز پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔
امریکی ملٹری انٹیلی جنس کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا کہ کہ کابل 30 دنوں کے اندر عسکریت پسندوں کے قبضے میں جا سکتا ہے اور اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو طالبان چند ماہ میں پورے افغانستان پر قابض ہوسکتے ہیں۔اگر طالبان اسی رفتار سے آگے بڑھتے رہے تو افغان حکومت آئندہ آنے والے دنوں میں بالآخر دارالحکومت اور دیگر شہروں کے دفاع کے لیے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو سکتی ہے۔
امریکا نے 2 دہائیوں میں افغان ریاست کے قیام اور افعال کے لیے 8 کھرب 30 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں جس کے بعد حالیہ حملے افغان افواج کے حیرت انگیز زوال کو ظاہر کررہے ہیں۔اس ضمن میں ڈیفنس آف ڈیموکریسیز فاؤنڈیشن کے ایک سینئر رکن بل روگیو نے کہا کہ کرپشن اور لڑائی کا عزم نہ رکھنے والے اہلکاروں کو مناسب اسلحے کے بغیر میدان میں اتارنے جیسی بدانتظامی کی وجہ سے افغان افواج خراب ہوچکی ہیں۔انہوں نے مزید کہا ہے کہ جو افواج بچ گئی ہیں وہ کابل کے علاقے اور اس کے اطراف کے صوبوں میں موجود ہیں جنہیں کابل کے دفاع کے لیے استعمال کی کوشش کی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ’تاوقتیکہ کچھ ڈرامائی طور پر تبدیل ہو میں نہیں دیکھتا کہ یہ صوبے طالبان کے کنٹرول میں کس طرح برقرار رہتے ہیں۔
ہرات شہر میں عسکریت پسندوں کے حملے 2 ہفتوں سے جاری تھے لیکن جمعرات کی دوپہر طالبان نے شہر کی دفاعی لائن توڑ دی اور بعد میں کہا کہ قبضہ ہوگیا ہے۔افغان قانون ساز ثمین باریک زئی نے بھی شہر کے سقوط کی تصدیق کی اور کہا کہ یہاں موجود کچھ عہدیدار فرار ہوچکے ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق کبھی ہرات کی جیل میں قید طالبان جنگجو اب سڑکوں پر آزاد گھوم رہے ہیں۔دوسری جانب قندھار میں طالبان نے گورنر کے دفتر اور دیگر عمارتوں پر قبضہ کیا جبکہ گورنر اور عہدیدار فلائٹ لے کر کابل فرار ہوگئے۔
ایک عہدیدار نے بتایا کہ اس سے قبل طالبان نے قندھار کی ایک جیل پر حملہ کیا اور وہاں موجود ساتھیوں کو آزاد کروالیا۔
ادھر قطر میں سفارتکاروں کی ملاقات جاری ہے تاہم قطر افغان فریقین میں ہونے والی بات چیت رک گئی ہے۔اسی کے ساتھ ہزاروں افغان ایک مرتبہ پھر طالبان کی ظالمانہ و جابرانہ حکومت کے خوف سے گھر چھوڑ کر فرار ہورہے ہیں۔