اسلام آباد: ماہرینِ ماحولیات کی جانب سے ماحول اور سمندری حیات کے لیے خطرہ قرار دیے جانے والے حیاتیاتی طورپر تحلیل(بائیو ڈی گریڈایبل) ہوجانے والے اوگزو(oxo) پلاسٹک بیگزکا استعمال روکنے کی تجویز دی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطاقب وزارت ماحولیات کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی جانب سے اوگزو بیگ کا استعمال ترک کرنے کا کہا جاچکا ہے۔
واضح رہے تحفظ ماحولیات کے پاکستانی ادارے (پاک-ای پی اے) کی جانب سے 8 سال قبل قدرتی طور پر تحلیل ہونے والے پلاسٹک بیگز متعارف کروائے گئے تھے، جن میں سے کچھ زمین اور سورج کی روشنی سے تلف ہوجاتے ہیں اور کچھ آکسیجن کی موجودگی سے آہستہ آہستہ ختم ہوجاتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حیاتیاتی طور پر تحلیل ہونے والے اوگزو بیگز 6 ماہ سے لے کر ڈیڑھ سال سے زائد عرصے میں پلاسٹک کے ذرات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
چونکہ یہ مکمل طور پر تلف نہیں ہوتے لہٰذا پلاسٹک کے ذرات کے مٹی میں ملنے کی وجہ سے زمین کی زرخیزی اور فصلوں کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔
اور اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ یہ ذرات پانی کے بہاؤ میں شامل ہو کر نہروں، دریاؤں سے ہوتے ہوئے سمندر میں پہنچ جاتے ہیں جنہیں مچھلیوں کی خوراک کاحصہ بن کر ان کی ہلاکت کا سبب بنتے ہیں، اور بعدازاں ان مچھلیوں کو کھانے کے سبب یہ انسانی جسم کا حصہ بن جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگراوگزو بیگز کے استعمال کو ترک نہیں کیا گیا تو پاکستان کی سمندری خوراک کی برآمدات کو نقصان پہنچے گا خاص کر یورپی ممالک کو کی جانے والی برآمدات اس سے متاثر ہوں گی جہاں ماحولیاتی قوانین پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں ایک سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ اوگزو بیگز کے متبادل کے طور پر کاغذ اور کپڑے سے بنائے گئے بیگز کے ساتھ ساتھ اسٹارچ سے بنی پلاسٹک کے بیگز کے استعمال کو فروغ دیا جاسکتا ہے، جو 100 دن بعد پانی اور حرارت سے ردِ عمل کے بعد خودبخود مکمل طور پر تلف ہوجائیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسٹارچ سے بنے ہوئے بیگز پہلے سے زیر استعمال ہیں، اور اس سلسلے میں پاکستان کو نئی ماحول دوست ٹیکنالوجی پر منتقلی کی ضرورت ہے۔