نئی دہلی، 24 جون (یو این آئی) ایتھلیٹ ایک ایسا کھیل ہے جہاں آپ کو جیتنے کے لیے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ سخت محنت اور جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔آج ہندوستانی خواتین کھیلوں کے ہر شعبے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں اور ملک کا نام بھی روشن کر رہی ہیں۔ کئی دہائیوں قبل کھیلوں کی دنیا پر صرف مردوں کا غلبہ نظر آتا تھا۔
کسی ملک کی خاتون کھلاڑی اگر کسی بڑے ایونٹ میں حصہ لے لیا کرتی تھی تو یہ بڑے فخر کی بات سمجھی جاتی تھی۔ ایسے دور میں ہندوستانی خواتین کے لیے گیمز میں حصہ لینا بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔ آج بھی ہندوستان نے ایتھلیٹکس کے شعبے میں بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں اور ان کامیابیوں میں ہندستان کے لئے بڑا تعاون دینے والی رائے بریلی کی سدھا سنگھ بھی ہیں جنہیں رائے بریلی ایکسپریس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
سدھا سنگھ نے اپنے ایتھلیٹ کیریئر کا آغاز 2005 میں کیا تھا۔ ہندوستانی اولمپین ایتھلیٹس میں وہ 3000 میٹر اسٹیپل چیس میں ایشین چمپئن بھی رہ چکی ہیں۔سدھا سنگھ نے معمولی ٹریننگ حاصل نہیں کی۔ انہیں بچپن سے ہی دوڑنا کا جنون تھا۔ ٹریننگ کے دوران وہ ایکسپریس ٹرین کے ساتھ ساتھ دوڑ لگا یا کرتی تھیں۔ یہی وجہ ہے انہوں نے 5 بار ممبئی میراتھن چیمپئن جیتی۔
رائے بریلی کے ایک عام گھرانے میں 25 جون 1986 کو پیدا ہونے والی سدھا سنگھ نے بہت چھوٹی عمر میں ہی ایک کھلاڑی کے طور پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
بچپن سے ہی کھیلوں کا شوق رکھنے والی سدھا نے رائے بریلی ضلع کے دیانند گرلز انٹر کالج سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ سدھا نے 2003 میں اسپورٹس کالج، لکھنؤ سے ایتھلیٹکس میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ایتھلیٹ سدھا سنگھ نے 14 برس کی عمر میں پہلا تمغہ جیتا اور اپنی کامیابی کی راہ میں کسی کوآگے آنے نہیں دیا۔
سدھا کے والد ہری نارائن سنگھ رائے بریلی کی آئی ٹی آئی فیکٹری میں کلرک تھے۔ سدھا سنگھ کے گھر میں ہمیشہ مالی بحران رہا۔ بچپن سے ہی والدین ان کی تعلیم اور مستقبل کی فکر میں تھے۔ لیکن انکے گھر والوں نے اپنی خواہشات کی قربانی دے کر ان کا بھر پور ساتھ دیا اور ہمیشہ ان کے ساتھ ڈھال بن کر کھڑے رہے۔ سدھا سنگھ کو بچپن سے ہی پڑھائی سے زیادہ کھیلوں میں دلچسپی تھی۔
گاؤں میں بچوں کے ساتھ ریس لگانا، پتھر پھینکنا اور درختوں سے چھلانگ لگانا سدھا کو پسند تھا۔ کبھی کبھی گھر میں سب پریشان ہو جاتے، پھر بھی وہ سدھا کے کھیلوں کی حوصلہ افزائی کرتے۔ اسکو ل کے اوقات سے 10 منٹ پہلے گھر سےنکل جاتی تھیں اورخوب تیز دوڑ لگاتی تھیں۔ ان کی اس عادت نے سدھا کو بھی پتہ نہیں چلنے دیا کہ وہ جس پڑھائی سے بچنے کے لیے بھاگتی تھیں، اس بھاگنے نے انہیں کب ایتھلیٹ بنا دیا۔
سدھا کو دوڑنے کا ایک جنون تھا وہ سب کو پیچھے چھوڑنے کے مقصد سے دوڑتی تھیں۔ انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انہیں میڈل ملے یا نہ ملے۔ سدھا کو شروع سے پڑھائی میں دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے ایتھلیٹ بننے کی طرف جھکاؤ بڑھ گیا۔