ہندوستان اور پاکستان میں بسے منقسم خاندانوں کے درمیان ازدواجی رشتے ہونا تو عام بات ہے۔ مگر کیا دونوں ممالک کے پیڑوں کے درمیان بھی اس طرح کے رشتہ قائم کیے جاسکتے ہیں؟ہندوستان کے مغربی صوبہ مہاراشٹر کے خوبصورت شہر پونے کے مضافات میں پاکستان کے چونسہ آم کی کامیاب پیوند کاری ہندوستان کے کیسری آم کے پیڑ کے ساتھ کی گئی ہے۔
اب اس میں بس پھل اگنے کا انتظار ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان امن مساعی کے کارکنان کا کہنا ہے کہ آم کی اس قسم کا نام وہ دوستي رکھنا چاہیں گے اور یہ پھل دونوں ممالک کے تلخ تعلقات کو مٹھاس میں تبدیل کردے گا اور دنیا بھر میں مشترکہ پھل کے روپ میں اس کی مارکیٹنگ کی جائے گنیتن کے مطابق اس پودے نے امرتسر سے دہلی کا سفر بس میں اور پھر دہلی سے پونے تک کا سفر ٹرین میں طَے کیا۔ اور 22 اگست کو پیس ہل گارڈن میں اس کو لگایا گیا۔
30 جنوری کومہاتما گاندھی کے یوم شہادت کے موقع پر پاکستان سے آئے مہمان چونسہ کے پودے کی پیوند کاری مہاراشٹر کے مشہور آم کیسری کے ساتھ کی۔ یہ نیا درخت اب تین سال کا ہوچکا ہے اور تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے۔
ادھر لاہور میں بیٹھے ارشاد احمد درخت کی تصویر کو دیکھ کر خوش اور پُر امید ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “یہ پودا نہ صرف امن بلکہ امید کی علامت ہے۔ پیس واکرز نے امید کا ایک ایسا بوٹا بویا ہے جو ایک دن جنوبی ایشیائی کےخطے میں نفرت اور کشیدگی کو محبت اور شگفتگی میں بدل دے گا۔ یاد رہے کہ دونوں ممالک کا قومی پھل آم ہے۔ اس پھل کی مشترکہ ورائیٹی، ایک مشترکہ وراثت کی بھی یاد دہائی کرائی گی۔
ی۔ اس کی افتتاحی فصل بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کو بطور تحفہ پیش کی جائے گی۔
یہ کہانی چند برس قبل شروع ہوتی ہے، جب امن عالم کے لیے کام کرنے والے چند کارکنان نے اپنے پیغام کو عام کرنے کے لیے اور مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفہ کی تبلیغ کے لیے سائیکل پر دنیا کے سفر کا ارادہ کیا۔ ہزاروں کلومیٹر کا سفر کرنے اور کئی ممالک سے گزارنے کے بعد وہ جولائی 2022 میں پاکستان پہنچے۔ جہاں انہوں نے 24 روز گزارے۔ کراچی، شکارپور، ملتان ہوتے ہوئے وہ لاہور پہنچے۔ مقامی افراد نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان کی خوب خاطر مدارت کی۔
یوگیش وشوا مترا، جنہوں نے اس وفد کی قیادت کی تھی، کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ان کو خاصی پذیرائی ملی۔ ان کے ایک ساتھی واکر نتن کہتے کہ جب وہ لاہور سے روانہ ہو رہے تھے تو انہوں نے خواہش کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان سے بھارت کچھ ایسی چیز لے جانا چاہتے ہیں جو ابدی ہو۔
ابھی وہ اس پر غور و فکر ہی کر رہے تھےکہ ایک کسان ارشاد احمد نے ان کو ایک گملہ تھما دیا، جس میں آم کی ایک قلم بوئی گئی تھی۔ یہ پاکستان کے یوم آزادی یعنی چودہ اگست کا دن تھا۔ اب اس کو سرحدی محافظوں کی نظر بچاکر یا ان کی اجازت کے ساتھ سرحد پار کروانے کا مسئلہ درپیش آیا۔
نتن کہتے ہیں کہ وہ جانتے تھے کہ یہ سب آسان نہیں ہونے والا تھا۔ پاکستانی امیگریشن حکام ان کو بار بار تاکید کر رہے تھے کہ یہ گملہ سرحد پار نہیں کرسکتا ہے۔ افسران نے گملے کی مٹی ہٹا کر تسلی کی کہ اس کے اندر کوئی چیز اسمگل تو نہیں ہو رہی ہے۔
کئی گھنٹوں کی مغز ماری کے بعد اسی افسر کی نظر اس وفد کے ایک رکن جالندھر ناتھ چنولے کے سامان میں موجود بانسری پر پڑی۔ اور اس نے اس کو بجانے کا حکم دیا۔ ہمارے وفد کے ممبر نے ایسی بانسری بجائی کہ امیگریشن کا پورا دفتر ہی وجد میں آگیا۔
بعد میں معلوم ہوا کہ مذکورہ افسر خود بھی بانسری بجانے کے استادوں میں تھے۔ بانسری کے دھن نے کشیدگی کو شگفتگی میں بدل دیا۔ پورے عملہ کا رویہ ہی تبدیل ہوگیا۔ بس اس بانسری کے بدولت انہوں نے پودا لیجانے کی اجازت دی مگر خبردار کیا کہ ہم نے تو جانے دیا مگر بھارتی امیگریشن اس کو آگے نہیں جانے دے گا۔
مگر اس وفد کو بانسری اور میوزک کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوگیا تھا۔ بھارتی امیگریشن پر انہوں نے مہاتما گاندھی کے مشہور بھجن کی دھن گائی۔ اگست کی شدید گرمی میں پودےکے مرجھانے کا خطرہ تھا، اس لیے افسران نے ان کو پانی کی ایک بوتل عطیہ میں دی تاکہ پودا پونا پہنچنے تک صحیح و سلامت رہے۔