مقبوضہ بیت المقدس ؛فلسطین میں اینٹی کرپشن کمیشن کی جانب سے کھجور اسکینڈل کا معاملہ سرکاری استغاثہ میں پیش کیے جانے کے کئی ماہ بعد اس سلسلے میں کئی ملزمان کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ گرفتار شدگان میں فلسطینی کاروباری شخصیات اور سابق سرکاری عہدے داران شامل ہیں۔
اس اسکینڈل کا تعلق اسرائیلی کھجوروں کی فلسطینی کھجوروں کے نام سے مارکیٹنگ اور ترسیل سے ہے۔ اس کے تحت اسرائیلی کھجوروں کی کھیپ کے لیے ایک سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے جس میں کھجوروں کو فلسطینی مصنوعات قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ کھجوریں مغربی کنارے میں داخل کی جاتی ہیں یا پھر بیرون ملک برآمد کر دی جاتی ہیں۔ فلسطینی ذرائع کے مطابق سرکاری استغاثہ نے گزشتہ دنوں کے دوران میں کھجور کمپنیوں کے کئی مالکان اور 2 سابق فلسطینی وزرا کو حراست میں لیا ہے۔
یہ اقدام 2010ء کے فلسطینی ایکٹ نمبر 4 کی خلاف ورزی کے حوالے سے جاری تحقیقات کے سلسلے میں عمل میں آیا۔ قانون کے مطابق اس خلاف ورزی پر 2سے 5 سال کی قید اور مالی جرمانہ یا پھر قید اور جرمانے میں سے کوئی ایک سزا دی جا سکتی ہے۔ شفافیت سے متعلق فلسطینی باڈی امان نے چند برس قبل فلسطینی اینٹی کرپشن کمیشن کو ایک کیس ارسال کیا تھا۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ بعض فلسطینی کمپنیاں اسرائیلی کھجوروں کو فلسطینی مصنوعات کا لیبل لگا کر فروخت کر رہی ہیں۔ فلسطینی وزارت زراعت کے مطابق رواں سال فلسطینی کھجوروں کی پیداوار کا حجم 12 ہزار ٹن سے زیادہ ہے۔
یہ پیداوار اریحا، اغوار، طوباس اور نابلس میں موجود تقریباً 3 لاکھ درختوں سے حاصل ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ کھجور اسکینڈل میں ملوث فلسطینی کمپنیاں ان اسرائیلی بستیوں کے نزدیک واقع ہیں جو کھجور پیدا کرتی ہیں۔ یہ علاقے فلسطینی اتھارٹی کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ دوسری جانب فنڈز سے بجلی اور پانی کے بلوں کے بقایا جات اور اسرائیلی اسپتالوں میں طبی منتقلی اور فلسطینی اسیران اور شہدا کے خاندانوں کو دی جانے والی رقم کے عوض اسرائیل کی طرف سے کٹوتیوں کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی کی حکومت شدید مالی مشکلات سے دوچار ہے۔
گزشتہ مالیاتی بحرانوں کے دوران فلسطینی حکومت نے قرض لینے کے لیے مقامی بینکوں کا سہارا لیا، لیکن اب یہ ممکن نہیں رہا کیوں کہ ان بینکوں کے قرضے 2.3 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ فلسطینی حکومت محدود آمدنی کی روشنی میں بحران کے خاتمے کے لیے ایک غیر معمولی اجلاس منعقد کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔